
اب تک مولانا فضل الرحمن صاحب محترم کے متعلق یہ رائے عام تھی کہ ان کو زیب نہیں دیتا کہ ملک کو لوٹنے والے لوگوں کی صف میں کھڑے ہو کر ان کی دفاع میں بولے لیکن مولانا صاحب ان لوگوں کی حمایت میں اتنے فعال ہو گئے ہیں کہ ان کے متعلق پہلے سے قائم عوامی رائے پر چہ میگوئیاں شروع ہو چکیں۔ مولانا صاحب اتنے جذباتی ہو چکے ہیں کہ سر عام ریاست کی رٹ ماننے سے انکار کر رہے ہیں اور بالکل مولاجٹ انداز کی بھڑکیں بھی مار رہے ہیں جو بہر حال مولانا صاحب کے شایان شان نہیں ہے ۔ ان کے تازہ بیانیہ کے مطابق ریاست اور تمام ریاستی ادارے ان کے سامنے حقیر ہیں۔ غرور و تکبر کا اظہار ، زبان درازی انتہا پر، لہجہ میں اداروں اور حکومت کے خلاف زہر بھرا، الفاظ نامناسب بلکہ سخت ترین.... سب کہو سبحان اللہ !
مولانا صاحب محترم کا یہ رویہ عوامی رائے پر اثر انداز ہو رہا ہے اور اس رائے کو تقویت اور پذیرائی مل رہی ہے کہ مولانا صاحب اس گروہ کی دفاع میں اتنے آگے نہیں جا رہے بلکہ ان کے کچھ ذاتی مسائل بھی ہیں جو یقینا چھوٹی سطح کے مسائل نہیں ہیں کیونکہ مولانا کے آحتجاج کا رفتار ان مسائل کی سنگینی کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔
اگر تو مولانا صاحب ایک جید عالم دین ہیں تو ان کا فرض بنتا ہے کہ احتساب سے متعلق پوچھے گئے سوالات کے جوابات کھلے دل سے دیں کیونکہ خلفاء راشدین حساب دیتے رہے ہیں ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا احتساب سر عام ہو سکتا ہے تو
ان کو کیا مسئلہ ہے۔ استثنی کی کوئی وجہ یا دلیل اخلاقی طور پر نہیں ہے البتہ ہٹ دھرمی تو کوئی بھی کو سکتا ہے مگر ریاست کو حق حاصل ہے کہ ہٹ دھرمی کرنے والوں سے نپٹ لے۔قانون کے آگے سب برابر ہونا ضروری ہے اور یہی تحریک انصاف اور عمران خان کا بیانیہ ہے۔