Mera Jism Meri Marzi - Insaf Blog | Pakistan Tehreek-e-Insaf
Mera Jism Insaf Blog


اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت ہمارے ملک کا ایک مظلوم طبقہ ہے۔ وہ عورت جسے ہم میں سے اکثریت جانتی تک نہیں، عورتوں کی وہ اکثریت جو دیہات اور پسماندہ علاقوں میں رہتی ہے۔ جو دن کا اجالا چھا جانے سے پہلے اٹھتی ہے، گھر کے کام کاج نمپٹا کر کھیتوں میں کام کرنے نکل جاتی ہے، جو کپاس چنتی ہے، گندم کی کٹائی کرتی ہے اور پھر تھکی ہاری واپس آکر شوہر اور بچوں کی خدمت میں لگ جاتی ہے۔ وہ عورت جو مردوں سے پہلے کھانا کھا لے تو اسے برا سمجھا جاتا ہے، وہ عورت جسے تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے۔ وہ عورت جسے اس کے اپنے والدین اور بھائی وراثت کے حق سے بھی محروم کردیتے ہیں۔ وہ جسے حکم دے دیا جاتا ہے کہ اب سسرال سے تمہاری میت ہی نکل سکتی ہے چنانچہ وہ چپ چاپ ساری زندگی سسرال کے ظلم و ستم کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیتی ہے۔ وہ عورت جسے پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے۔

پھر شہری یا نسبتا بہتر علاقوں میں رہنے والی عورت ہے جو کچھ پڑھی لکھی ہوتی ہے اور اپنے حقوق کا ادراک رکھتی ہے اور کچھ حد تک اپنے حقوق کا دفاع بھی کرلیتی ہے لیکن اسے بھی کسی نا کسی سطح پر تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دیہاتی اور پسماندہ علاقوں کی عورت ہو یا شہری علاقوں کی نسبتا پڑھی لکھی عورت، دونوں میں سے کوئی بھی اگر گھر سے باہر نکلے چاہے وہ اپنے بچوں کے لیے روزگار کمانے ہی نکلی ہو یا پھر کوئی خریداری کرنے، ہمارے نناوے فیصد مرد اسے ایسے گھورتے ہیں جیسے بھوکے کتے قصائی کے پھٹے پر لٹکے گوشت کو گھور رہے ہوتے ہیں۔ گھر سے از حد مجبوری کے تحت نکلنے والی عورت کو بھی بدقماش اور بیمار ذہنیت کے مرد آوارہ اور بدچلن ہی تصور کرتے ہیں۔

پھر ایک تیسری عورت ہے جو ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ باقی عام عورتوں کے تناسب سے یہ ہمارے ملک کا ایک فیصد بھی نہیں۔ یہ عورت عام طور پر تفریح اور ٹائم پاس کے لیے کوئی جاب وغیرہ کرتی ہے۔ ان کی اکثریت مغربی این جی اوز میں کام کرتی ہے۔ وہ این جی اوز جو عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔ یہ ایک فیصد عورتیں ان نناوے فیصد عورتیں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں جن کا ذکر میں نے اوپر کیا۔ جب یہ ایک فیصد عورتیں، باقی نناوے فیصد عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں تو پھر میرا جسم میری مرضی جیسے نعرے وجود میں آتے ہیں جس کا نناوے فیصد عورتوں سے کوئی تعلق نہیں اور نا ہی یہ نناوے فیصد عورتوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں مادر پدر آزادی دے دی جائے۔ چنانچہ عورتوں کے اصل مسائل تعلیم، صحت، انصاف، عزت، ہراسانی، گھریلو تشدد، وراثت میں حصہ، جبری مشقت وغیرہ پسِ پشت چلے جاتے ہیں۔ یہ ایک فیصد عورت ہی ان نناوے فیصد عورتوں کی اصل دشمن ہے کہ ان کے حقوق کے نام پر اپنا ایجنڈا تھوپنا چاہتی ہے۔ ماروی سرمد جیسی یہ ایک فیصد عورت چونکہ بااثر ہے اور ان کے پاس این جی اوز کی بھاری فنڈنک ہوتی ہے چنانچہ یہ اور ان کے نعرے سماج کے منظرنامے پر چھا جاتے ہیں اور کھیتوں میں کام کرنے والی، سکول کالج میں پڑھانے والی، سسرال کے تشدد کا شکار، وراثت سے محروم عورت پس پشت چلی جاتی ہے۔

اگر آپ کو صرف تنقید برائے تنقید سے پہلے عورت مارچ کے مطالبات پڑھنے کا موقع ملا ہو تو آپ کو احساس ہوگا کہ ان میں سے ایک بھی ناجائز نہیں لیکن جب اس ایجنڈا کو این جی او زدہ ایک فیصد عورتیں ہائی جیک کرلیں گی تو پھر صرف میرا جسم میری مرضی جیسے بینرز اور پلے کارڈز نظر آئیں گے اور کھیتوں یا اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والی عورت راہ تکتی رہ جائے گی۔

خواتین کے مسائل کبھی بھی ریلیوں، جلسوں اور ان ایک فیصد خواتین کے ذریعے حل نہیں ہونگے جو ہمارے معاشرے کی نمائندگی ہی نہیں کرتیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے اگر کوئی کچھ کرسکتا ہے تو وہ حکومت ہے۔ اگر موجودہ حکومت کی بات کی جائے تو وزیرِ اعظم پاکستان شروع سے ہی اس سے متعلق ایک بڑا وژن رکھتے ہیں۔ انہیں نے اپنے فلاحی رفاعی پراجیکٹ کا نام بھی اپنی والدہ کے نام پر رکھا۔ عمران خان کی حکومت خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات اٹھا رہی ہے تو کہ کہنا بے جا نا ہوگا کہ احساس پروگرام اس سلسلے میں ایک اچھی پیش رفت ہے۔ احساس پروگرام کے تحت ساٹھ لاکھ خواتین کو غربت سے نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔ احساس پروگرام کے تحت ہی کفالت اور تحفظ کے نام سے دو سکیمیں شروع کی جائیں گی جن میں بڑی تعداد میں خواتین کو شامل کیا جائے۔ کفالت اور تحفظ سکیمز کے تحت پسماندہ علاقوں میں رہنے والے انتہائی غریب خاندانوں کو ان کی صحت اور غذائی ضروریات سے متعلق مدد کی جائے گی۔ کفالت پالیسی کے تحت انتہائی غریب ترین خواتین کے بینک اکاؤنٹس کھولے جائیں گے تاکہ انہیں معاشی تحفظ اور خود مختاری فراہم کی جاسکے جبکہ تحفظ پروگرام کے تحت ان کی صحت اور غذائی ضروریات کا خیال رکھا جائے گا۔

آخر میں بات کی جائے خلیل الرحمٰن قمر اور ماوری سرمد کی، تو دونوں ہی انتہا پسند ہیں۔ ماروی سرمد ان ایک فیصد عورتوں سے تعلق رکھتی ہے جو باقی نناوے فیصد عورتوں کے اصل مسائل کو ہائی لائٹ ہی نہیں ہونے دیتی اور میرا جسم میری مرضی یا اپنا کھانا خود گرم کرلو جیسے لغو نعروں کی بدولت مظلوم عورتوں کے ساتھ دشمنی کررہی ہے۔ اور دوسری طرف خلیل الرحمٰن قمر ہے جو اپنی بد زبانی یا چرب زبانی سے ایسی عورتوں یا ان کے حامی لوگوں کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں۔ یعنی آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ ماوری سرمد کا جسم تو تھوکنے کے قابل بھی نہیں لیکن اگر عورت خوبصورت ہو تو پھر اس کا جسم نوچا جاسکتا ہے؟ (محمد تحسین)