
آسماں پے اسکی سُرخی کیسے چھپاؤ گے؟
مانو نا مانو کوئی ماجرہ ہوا ہے.....!
ایک دور تھا جب مسلمان بکھرے ہوئے تھے، مظلوم بھی تھے، مایوس بھی تھے، غریب بھی تھے اور کمزور بھی تھے۔ ظلم سہتے جا رہے تھے ،جدوجہد تو تھی مگر منزل عیاں نہ تھی، فیصلے کرنے کا حوصلہ تو تھا مگر اتحاد نہ تھا۔ راستے جدا جدا چن لیے تھے۔ منزل کا نشاں کھو چکے تھے۔ گزارتےجا رہے تھے زندگی مگر غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔
1937 کی وزارتوں کی شکل میں ہندوتوا کا دور آیا۔ وہ جو پہلے جینے کی جدوجہد میں جی رہے تھے ان پر سانسیں بھی بند کردیں گئیں۔ مساجد کے باہر، قربانی کے جانوروں پر، حتی کہ مذہبی رسومات و عبادات کی ادائیگی کے لیے ہر روز خون بہنے لگا۔
"اتنا دبا دو کہ کبھی اٹھ نہ سکیں" کے انگریزوں والے نظریے سے نکلے تو "اتنا دبا دو کہ جی نہ سکیں مگر ہندو بن کر" کے تسلط میں آگئے۔
ان ترنگی وزارتوں کے عبرت ناک 3 سال ختم ہوتے ہی بہت سے مسلم دھڑے اسلام کے تحفظ کے لیے یک جا، یک زبان ہو کر کھڑے ہونے لگے۔ جدوجہد کی تو کیا ہوا پاکستان بن گیا...! اگر یہ سوچتے ہو صرف قربانی سے آزادی ملی ہے تو غلط سوچتے ہو.!
کشمیریوں نے بےدریخ قربانیاں دے کر بھی آزادی کی نعمت نہ پاسکے۔
پھر کیا یہ اللہ کی عطاء .....؟
کشمیر کی صورت حال بھی وہی ہے جو انگریزوں کے دور کی کانگریسی وزارتوں میں مسلمانوں کا تھا۔
دور ہم پر 1400 سال پہلے والا بام عروج کا ہو یا زوال پزیر ہوں پر حرمتِ ملت کے ستارے کبھی بجھتے نہیں دیکھے۔ ایک وانی جاتا ہے تو اُسکے لہو سے لاکھوں چراغ جل جاتے ہیں۔ حسینی علَم' وہ حق کا علَم لیے باطل کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں۔
موقع و محل دیکھیں تو آج کشمیر سے وہی ترنگی وزارتوں کی بو آ رہی ہے۔ وہی وقت آن پہنچا ہے۔ بس سوچ رہی ہوں کہیں آزاد جموں کشمیر نے بھی جوہری ہتھیار نہ ڈویلپ کر لیے ہوں۔اگر ایسا ہوتا ہے تو یقیناً یہ خطرناک ہوگا۔ مگر جو اکیسویں صدی کے جدید ترین دور میں سب کے سامنے جو ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر میں ہو رہا ہے وہ بھی انتہائی خطرناک ہے۔ ہر یورپی ملک یہ کہہ رہا ہے کہ" وہ کشمیر کی تشویشناک صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں"۔ یہ وہی یورپ ہے جس نے عراق پر فوجیں چڑھائیں، انسان اور انسانیت کے تحفظ کا نعرہ لگا کرکیں تھیں۔
لب سِتی ہوں تو ضمیر تار تار ہوتا ہے
لب کھولوں تو امن کا اُلو، زارو قطار روتا ہے