وزیراعظم عمران خان نے جو وعدہ کیا تھا کہ وہ اختیارات کو عوام میں منتقل کرینگے، انھوں نے انتخابات کرا کے اپنا وعدہ پورا کیا
اس سلسلے میں پہل لوکل باڈیز انتخابات پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع سے کیا جس میں عوام نے بھرپور حصہ لیا۔ ابھی تک نتائج مکمل نہیں آئے ہیں لیکن جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ پاکستان تحریک انصاف اور اس کے ووکرز کے لیے حوصلہ افزا نہیں ہیں اور غیر متوقع طور پر جمیعت علماء اسلام ف گروپ کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے ۔ سیٹیں ف گروپ کی زیادہ ہیں لیکن ووٹس پاکستان تحریک انصاف نے زیادہ لیے ہیں۔
اگر ووٹوں کو دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمران خان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ لیکن جمہوریت ہے جس کی سیٹیں زیادہ ہوں گی اسی کو حکومت بنانے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ یہ لوکل باڈیز انتخابات تھے تو وہ لوکل طور پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔
پی ٹی آئی کو کم سیٹیں کیوں ملیں اس کی کئی وجوہات ہیں۔
اس میں مہنگائی کا بھی بڑا عمل دخل ہے لیکن یہ مہنگائی صرف پاکستان میں نہیں بڑھی، ساری دنیا اس مہنگائی کی لپیٹ میں ھے۔
میں چند دن پہلے پاکستان سے واپس آیا ہوں اور میں نے پاکستان میں وقت گزارا ہے، ادھر کے حالات میں نے دیکھے ہیں اور باہر ملکوں کے حالات بھی نظر کے سامنے ہیں لیکن میں یہ کہوں گا کہ اب بھی پاکستان پر اللہ کا بہت بڑا رحم و کرم ہے جس کو ابھی تک مہنگائی کے بڑے اثرات سے بچا رکھا ہے۔
یہ میری طرح اور لوگوں نے بھی محسوس کیا ہوگا جو پاکستان اور باہر ملکوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔
امریکہ جو دنیا میں ایک معاشی طاقت ہے لیکن مہنگائی کے آگے بےبس نظر آرہا ہے۔ امریکہ کی تیس سالہ تاریخ میں اتنی مہنگائی نہیں آئی جو اب کرونا وائرس کی وجہ سے آئی ہے۔
تقریباً دنیا کے ہر ملک میں 40 فیصد سے لیکر 45 فیصد مہنگائی آئی ہے لیکن ہمارے لوگ نسبتاً کم آمدن والے ہیں اس لیے ان کو یہ مہنگائی زیادہ لگی ہے ورنہ ماضی کی حکومتوں نے بغیر کسی کرونا وبا کے ہر چیز مہنگی کی تھی لیکن یہ قوم پھر بھی خاموش تھی۔ لیکن یہ بھی اچھا شگون ہے کہ عوام میں شعور بیدار ہوچکا ہے اور وہ احتجاج کرنا جانتے ہیں۔
تحریک انصاف کو متوقع نتائج حاصل نہ ہونے میں دوسرا بڑا عمل دخل ٹکٹوں کی غلط تقسیم اور اقربا پروری کی وجہ سے ہوا ہے۔ زیادہ تر ٹکٹ وزراء، ایم این ایز اور ایم پی ایز نے اپنے رشتہ داروں میں بانٹیں جو گروانڈ پر موجود ورکرز کیساتھ سراسر ناانصافی اور ظلم تھا۔۔ خیر اس کا خمیازہ بھی بھگت لیا۔
تیسری بڑی وجہ ایک ہی گاؤں اور تحصیل میں پی ٹی آئی کے دو دو اور تین تین امیدوار ایک دوسرے کے خلاف آزاد حیثیتوں میں کھڑے ہوگئے اور اس وجہ سے ووٹ تقسیم در تقسیم ہوتا چلا گیا۔ جس کا بھرپور فائدہ اپوزیشن کی جمعیت علماء اسلام ف گروپ کو ہوا۔
اس کی زندہ مثال کوہاٹ میں ایک تحصیل کی ہے جسمیں ٹکٹ پی ٹی آئی ورکر کو نہیں دیا گیا اور وہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اس کیساتھ دوسرا پی ٹی آئی ورکر جس کو ٹکٹ ملا تھا اس کو 15000 ہزار ووٹ پڑے اور دوسرے پی ٹی آئی کے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے والے کو 25000 ہزار ووٹ پڑے اور اس ف گروپ کے جیتنے والے کو 34000 ووٹ ملے تو آسان حساب ہے ووٹ کس پارٹی نے زیادہ لیئے۔۔۔۔
اگر ٹکٹوں کی منصفانہ تقسیم ہوتی تو یقینا پارٹی کا اتنا برا حال نہ ہوتا جو اب پی ٹی آئی کا ہوا ہے۔
اس پر وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی خاموش نہیں ہوئے اور ٹکٹوں کی غلط تقسیم پر میدان میں آگئے اور اس کی تحقیقات کا اعلان کیا۔
تحقیقی رپورٹس آنے کے بعد غفلت برتنے اور ٹکٹوں کو اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کرنے والوں کے خلاف کاروائی کا حکم دیا ہے اور ابھی ابھی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی طرف سے پریس کانفرنس ہوئی جسمیں انہوں نے پی ٹی آئی کی تمام تنظیمی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سمییث تحصیل کی سطح پر بھی کمیٹیاں ختم کرنے کا اعلان وزیراعظم کی طرف سے کیا اور ساتھ کہا کہ کسی رشتہ دار کو ٹکٹ کا فیصلہ مقامی قیادت نہیں کریگی بلکہ وفاقی سطح پر ہوگا اور بعد میں نئی تنظیمی ڈھانچہ بنے گا۔
عمران خان وزیراعظم بننے سے پہلے بھی مورثی سیاست کے خلاف آواز اٹھاتے تھے اور ساتھ کہتے تھے کہ پی ٹی آئی اور باقی پارٹیوں میں یہی فرق ہے ۔
پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کا یہی حال ہے کہ باپ کی جگہ بیٹا یا بیٹی پارٹی کا چیئرمین بنے گا پیپلز پارٹی میں بھٹو خاندان سے لیکر زرداری بھٹو تک یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے۔
ن لیگ میں نواز شریف کے بعد اس کے بھائی شہباز شریف ' حمزہ شہباز اور مریم نواز کو بڑے بڑے عہدے ملے ہیں۔
جمعیت علماء اسلام ف گروپ میں مولانا فضل الرحمٰن کے بیٹے مولانا اسد اور اس کے بھائی مولانا عطا الرحمٰن بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں۔
کیا ان کے بچوں کے سامنے پارٹیوں کے سینئر ترین رہنماؤں کی کوئی حثیت نہیں؟ کیا ان سینئر ترین لوگوں میں پارٹی چیئرمین بننے کی اہلیت نہیں ؟ یا صرف فلاں صاحب فلاں کا بیٹا ہے یا بیٹی ہے تو یہ اہل ہیں اور باقی لوگ صرف زندہ آباد اور مردہ آبادکا نعرہ لگانے کے لئے پارٹی کے رکن ہیں؟ اور اس مقام پر نہیں پہنچیں گے جیسے کے فلاں صاحبان کی اولاد یا نواسے پہنچے ہیں۔
یہاں پر پی ٹی آئی کے علاوہ ایک اور جماعت ہے جس میں موروثی سیاست نہیں چلتی اس کا نام ہے جماعت اسلامی پاکستان۔
اس کے ماضی کے تمام سربراہوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس میں کسی نے بھی اپنے بعد پارٹی سربراہی اپنے بیٹوں یا نواسوں کو نہیں سونپیں بلکہ اس میں باقاعدہ الیکشن ہوتا ہے اور امیر مقرر ہوتا ہے۔
بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی جلد شروع ہوجائے گا اس میں پتہ چلے گا کہ کس کا پلڑا بھاری ہے اور کس کا نہیں ؟ آیا پی ٹی آئی اس غیر متوقع نتائج سے سبق سیکھے گی یا دوبارہ رشتہ داروں میں ٹکٹ تقسیم کیے جائیں گے؟
ان تمام سوالات کا جواب وقت آنے پر ملے گا ۔
اللہ سے دعا گو ہیں کہ اللہ پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائیں اور یہ بلدیاتی انتخابات بخیر وعافیت سرانجام پائیں آمین۔