پاکستان میں خواتین نے جہاں ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنا نام کمایا ہے ، وہیں خواتین کی کثیر تعداد معاشی تنگدستی کا شکار بھی ہے ۔ حقوقِ آزادیِ نسواں پر آواز بلند کرنے والوں نے عورت کی آزادی کو محض لباس کی حد تک محدود کر دیا ہے اور عورت کے اصل مسائل پر پردہ پڑ چکا ہے ۔ گھریلو ناچاقی ، زچگی کی خراب صورتحال ، حفظانِ صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی ، تعلیم کی کمی ، غیرت کے نام پہ قتل ، فیکٹری مالکان کا کم اجرت دینا ، یہ وہ تمام مسائل ہیں جن کا آج کی پاکستانی عورت سامنا کر رہی ہے ۔ اور یہ تمام تر مسائل کی جڑ عورت کا معاشی طور پہ محتاج ہونا ہے۔
اگر ہم واقعی ہی حقوقِ آذادی نسواں کے حامی ہیں تو ہمیں سب سے پہلے عورت کے معاشی مسائل کی طرف توجہ دینی ہوگی، اس پر بات کرنا ہوگی۔ کسی بھی معاشرے میں عورتیں معاشی طور پر تنگدستی اور محتاجی کا اتنا شکار نہیں ہوں گی جتنا ہمارے معاشرے میں ہیں ۔
بیروزگار خواتین میں اکثریت پڑھی لکھی خواتین کی ہے ، کیونکہ ان پڑھ خواتین تو محنت مزدوری کرتی نظر آتی ہیں ۔
اور اس کی وجوہات میں سے اول تو یہ مس کانسیپشن ہے کہ ڈگریاں لے کر نوکریاں کر کے بہت سارا پیسہ کما لیں گے ۔ تعلیم شعور کیلئے حاصل کرنی چاھیے اور کمانے کے عمل کو تعلیم کے محتاج نہیں کرنا چاھیے ۔ تعلیم شعور کیلئے حاصل کریں اور کمانے کیلئے کوئی ھنر سیکھنا چاھیے ۔
اور اگر کوئی یہ بات سمجھتا بھی ہے تو نرگسیت کا شکار ہو جاتا ہے کہ نوکری کریں گے تو ایک دم وائٹ کالر جاب کریں گے ، اور کاروبار کرنا ہے تو شیشوں والوں بڑا سا شو روم یا بڑا سا دفتر ہونا چاھیے ۔
ہمارے اس اسٹیٹس کانشس نے ہمیں ترقی پذیر رکھا ہوا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مل کر ایک ایسا ماحول قائم کریں کہ جس میں ہمارے معاشرے کے مرد و عورت ،
عورت کیلئے چھوٹے چھوٹے کاروبار ، جیسا کہ پھل فروخت کرنا، کوئی بھی اسٹال لگانے کو، اور چھوٹے چھوٹے کاموں کو معیوب نہ سمجھے، بلکہ محنت کر کے رزقِ حلال کمانے والی کی عزت کی جائے ۔
خاص طور پر طلبا کو اپنی پڑھائی کے اخراجات پورے کرنے کیلئے کوئی چھوٹا سا کام کرنا چاھیے ۔
ہمارے پاکستان میں بلاشبہ ایسی بہت سی مثالیں پہلے سے موجود ہیں ، لیکن ہمیں اس کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔
پاکستان کی ایک سرکاری یونیورسٹی میں پڑھنے والے طالبعلم نے یونیورسٹی کا خرچہ سردیوں میں ابلے انڈے بیچ کر کیا ، لوگوں کی اسائنمنٹس کر کے پیسے کماتا تھا ۔ ڈگری کے بعد اسے ایک نامور برانڈ میں جاب مل گئی ۔ اس نے کچھ عرصہ وہاں تجربہ حاصل کیا اور اپنا کام بہت چھوٹے سے لیول سے شروع کیا ۔ بھلا جیسے کاروبار کی عادت جائے وہ نوکری پر اکتفا کیسے کرسکتا ؟ اب وہ بہت اچھا کما رہا ہے ۔
کراچی ، ملتان اور لاہور کی فوڈ اسٹریٹس پر برگر، شوارمے اور چپس کے اسٹائل لگانے والی چند خواتین ہم تمام پاکستانیوں کیلئے باعثِ ترحم نہیں بلکہ باعثِ فخر ہونی چاھیں ۔
جبکہ ہمارا موجودہ کلچر ڈگریاں حاصل کر کے نوکریوں کیلئے در در کے دھکے کھانے کو فروغ دیتا ہے ، ڈگریاں کر کے نوکری مل گئی تو اس سے وہ آمدن نہیں ہوتی کہ والدین کے ڈگریوں پر لگائے لاکھوں روپے کا ازالہ ہو سکے ۔ اور اگر نوکری نہیں ملی تو بس روتے رہنا ہے لیکن کوئی کام نہیں کرنا ، کیونکہ کوئی چھوٹے درجے کا کام ہمارے شانِ شایانِ نہیں ہوتا۔
اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ ساری عورتیں گھر سے باہر نکل کر ہی کام کریں ۔ گھر بیٹھے بھی خواتین بہت سے کام کر سکتی ہیں ۔
ہم جس معاشی بدحالی کا دور جی رہے ہیں ، ضروری ہے کہ مرد و زن دونوں کام کریں ۔
پڑھائی کے ساتھ ساتھ کوئی ھنر لازمی سیکھیں جو آپ کے کم از کم ذاتی اخراجات تو پورے کر سکے ۔
اور اگر آپ کے پاس کام ہو تو بیروزگاروں کو کام دیں۔
کسی بیروزگار اور تنگدست کو خیرات دینے سے ہزار گنا بہتر ہے کہ آپ اسے کاروبار کے مواقع فراہم کریں ۔ نوجوانوں اور خصوصاً طالبعلموں کو کام دیں اور اس کا پورا معاوضہ ان کو ادا کریں ، تاکہ معاشرے میں فارغ بیٹھنے ، گھر کے ایک فرد پہ معاشی طور پہ منحصر ہونے ، اور بھیک مانگنے کا رواج ختم ہو ۔
اگر شادی شدہ بیروزگار خواتین کی بات کریں تو ان کے حالات اور بھی برے ہیں ، سارا دن گھر کا کام کاج کرنے کے باوجود وہ بیروزگار رہتی ہے ۔ خاوند اگر نہیں چاھتا کہ اس کی بیوی کام کرے تو وہ بیوی کی ذاتی ضروریات کیلئے خرچہ دے اور اسے احسان نہ سمجھے، کیونکہ وہ عورت ھاوس میکر ہوتی ہے ۔ اور اگر بیوی کے اخراجات اس پر بھاری پڑتے ہیں تو اسے کمانے دے، بےشک گھر بیٹھے کمائے ۔ معاشی تنگدستی ازدواجی زندگی کو خراب کرتی ہے ، اس سے روزنامہ چخ چخ ختم ہی نہیں ہوتا۔
جن گھرانوں میں مرد و زن مل کر کام کر رہے ہوتے ہیں وہ خوشحال ہوتے ہیں ۔
آپ چین ، جاپان اور دیگر اقوام کی خواتین دیکھیں کہ ان کے ممالک کی معاشی ترقی میں ان کا کتنا ھاتھ ہے ۔
کوئی کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا ، رزق حلال اور رزقِ حرام ہوتا ہے ۔
رزقِ حلال کیلئے محنت کریں اور یہ فضول کی شرم اور حیثیت شعور (Status Conscious) ہونے سے پرھیز کریں کیونکہ یہ آپ کی معاشی محتاجی کو کم نہیں کرسکتے