انسانی تاریخ گواہ ہے کہ دنیا بھر میں جو بڑے بڑے رہنما گزرے ہیں ان سب نے نہ صرف اپنی قوم کے لئے بلکہ پوری انسانیت کے فلاح و بہبود کے لئے سوچا اور اس پر عمل پیرا ہوئے لیکن پھر بھی بے شعور لوگوں کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے۔
پرانے وقتوں کی بات اور ہے مگر اب میڈیا اتنی موثر ہے کہ بے شعور لوگوں کی تنقید کا جواب فوری طور پر اور موثر انداز میں مل جاتا ہے۔
کچھ بے تکے دانشور اس وقت تاریخ ساز اور بت شکن لیڈر عمران خان پر تنقید کر رہے ہیں کہ قوم کو ڈراموں کی طرف ہانکنے والے وزیر اعظم سے بہتری کے کیا توقعات وابستہ کرنا!
تصویر کا ایک ہی رخ دیکھ کر یار لوگوں نے خوب مذاق اڑایا ۔لعن طعن ہوئی مگر مجال ہے کہ کسی نے تصویر کا دوسرا دیکھنے یا دکھانے کی کوشش کی ہو۔
عمران خان کو کھلاڑی کہنے والے ان کو سمجھ نہیں پا رہے ۔
نظر اور بصارت و بصیرت میں واضح فرق یہ ہے کہ نظر سے پردے کے آگے دیکھا جاتا ہے اور بصیرت پردے کے پیچھے دکھانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔
ان نام نہاد دانشوروں نے عمران خان کے ڈرامے سے متعلق ویژن کو نظر سے دیکھا کیونکہ بصیرت سے عاری ہیں ۔
پاکستان کے دشمن عناصر پاکستان کو خاکم بدہن کمزور کرنے کے لئے ہر زاویے سے حملہ آور ہیں۔ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ نوجوان اور جوان نسل کو بے راہ روی کا شکار کر کے ذہنی طور پر کمزور کیا جائے۔
اس مقصد کے حصول کیلئے یو ٹیوب وغیرہ پر انتہائی فحش ویب سائٹس کا استعمال کیا گیا اور اتنے حد تک گر گئے کہ سٹوڈنٹس ٹیچر افیئرز جیسے مواد ویڈیوز کی شکل میں ڈالے گئے ۔نوجوان کے کردار پر ان چیزوں کا اثر فطری عمل تھا ۔ یوں جوانوں کے اذہان مفلوج کرکے قوم کو کمزور کرنے کے منصوبہ بندی کی گئ۔ یہ کوئی 2018 سے نہیں ہوا بلکہ اس کوشش میں دو دہائیاں بیت گئیں۔
کپتان کو اپنی قوم کے جوان اور نوجوان سے پیار تھا۔کپتان ان کو قومی اثاثہ قرار دیتے ہیں اور ان کی ذہن سازی کا بھی سوچا ۔ان تاریخی ڈراموں سے جوان عریانی و فحاشی سے ڈائیورٹ ہو کر تاریخ کے عظیم کرداروں کے متعلق جاننے لگے ۔
یہ کپتان کی فہم و فراست ہے۔ بصیرت ہے ورنہ سابقہ حکمرانوں کے ادوار میں بھی یہ سب چلتا رہا۔
کہاں تھی ان کی بصیرت ؟؟غیرت؟؟
کیا تھا ان کا ردعمل؟؟
یہ عمران خان کی فطرت کا آدمی سوچ سکتا ہے کہ جوان کی تربیت ، کردار سازی اور ذہن سازی بہتر طریقے سے ہو۔ برائی سے بھی بچیں اور مثبت سوچ بھی پروان چڑھے۔