پچھلے عرصے ضروری کام کے سلسلے میں علامہ اقبال ٹاؤن لاہور کی طرف جانا ہوا۔ کامران بلاک کے قریب سڑک کے کنارے پر ایک چھوٹا بچہ جس کی عمر 7 سے 8 سال ہوگی، ایک چھوٹی سا کھانے پینے کی اشیا۶ کا اسٹال لگاٸے بیٹھا تھا۔ وقت کی کمی باعث ٹھہر نہ سکا اور سفر جاری رکھا۔ شام کے وقت واپسی پر دوبارہ وہی راستہ اختیار کیا تاکہ بچے کو نوٹس کر سکوں۔ وہاں پہنچا تو بچہ اپنے اسٹال پر سو رہا تھا، اور نہایت قابلِ رحم لگ رہا تھا۔ اس بچے کو اٹھا کر اس کی کچھ مدد کی مگر میرے ذہن میں کچھ سوالات نے جنم لیا۔
کیا یہ صرف اشرافیہ کا پاکستان ہے؟ ملک میں بڑھتی مہنگائی سے متاثرہ لاکھوں خاندانوں کے لاکهوں بچے سے ان کا بچپن چھین لیا گیا ہے۔ یہ بچے جنہیں پاکستان کے مستقبل کا معمار ثابت ہونا تھا، اپنا اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کےلیے، اتنی چھوٹی عمر در در ٹھوکریں کھانے اور زمانے کی بےرحمی جھیلنے کےلیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ریاست اپنے شہریوں کےلیے ایک ماں کا درجہ رکھتی ہے، کیا ریاستِ پاکستان اور اس کے حکمران یہ حق ادا کر رہے ہیں؟ کیا غریبوں کے ان بچوں کو تعلیم کا حق حاصل ہے؟ اس ملک کے چوک و چوراہوں پر مانگتے بچے، پڑھنے لکھنے کی عمر میں محنت مزدوری کرتے یہ ننھے ہاتھ، بھوک اور افلاس سے پریشان یہ غریب لوگ، کیا اس بات کا منہ بولتا ثبوت نہیں گہ یہ صرف اشرافیہ کا پاکستان ہے؟
روز بروز ضروری اشیا۶ کی بڑھتی قیمتیں اگر کسی کو متاثر کر رہی ہیں تو وہ صرف غریب ہے۔ یہ حکمران طبقہ جس کی عیاشیوں میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا، بےشرمی، ڈھٹاٸی اور بےغیرتی سے عوام کا خون چوس رہا ہے۔ ہر دو دن بعد حکمرانوں کو مشکل فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ یہ مشکل فیصلے لیتے حکمران ہیں مگر ان کے اثرات عوام کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ سوال صرف اتنا ہے کہ جب ملک مشکل وقت سے گزر رہا ہے تو ان حکمرانوں کی عیاشیاں بھی تو کم کی جاٸیں، ان کے پٹرول بھی بند کٸے جاٸیں، بیرونِ ملک دوروں پر پابندی لگاٸی جاٸے، نوکر چاکر کی مراعات واپس لی جاٸیں، بجلی کی مفت فراہمی روکی جاٸے۔۔۔ مشکل فیصلوں کا بوجھ صرف عوام ہی کیوں برداشت کرے؟ کیا جس مشکل وقت سے ملک گرز رہا ہے، وہاں اس ملک کو لے جاکر کھڑا کرنے والی یہ عوام ہے یا ان پر مسلط حکمران؟ آج تک اس ملک میں صرف مشکل فیصلے ہوٸے ہیں اور ان کا بوجھ صرف عوام نے برداشت کیا ہے۔
وزیروں مشیروں اور سرکاری افسران کے مفت پٹرول بند کرنے سے متعلق سوال پر حکومتی پارٹی کے نمائندے کا کہنا تھا کہ اس سے کرپشن میں اضافہ ہوگا۔ مطلب حکمرانوں کی عیاشیاں رکنی نہیں چاہیں۔ عوام خون پسینہ سے کما کر ٹیکس دے اور ان حکمرانوں اور خاندانوں کو بھی پالے، اور پھر یہ اپنی استطاعت کے مطابق لوٹ مار بھی کریں، پھر ان کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کا بوجھ بھی عوام برداشت کرے۔ پھر نہ ان سے سوال پوچھا جاٸے نہ جواب مانگے کیونکہ یہاں اندھیر نگری ہے۔
ابھی بھی وقت ہے، عوام ان لوگوں کو پہچانے اور اپنے حقوق کی جنگ لڑے۔ آج غریب کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں، نوجوانوں کے لیے نوکریاں نہیں، انصاف کی فرہمی صرف امیروں کےلیے، اور تعلیم کا حق تک غریب کے بچے سے چھین لیا گیا ہے۔۔۔ دن بہ دن بڑھتی مہنگائی مگر عوام میں ایک گہری خاموشی ہے۔ کوٸی اپنے حقوق کی بات کرنے یا حقوق مانگنے کو تیار نہیں، ظلم ہو رہا ہے مگر ہر شخص سہہ رہا ہے۔۔۔ کیوں؟ اور کب تک؟ کیا پاکستان مٹھی بھر اشرافیہ کی جاگیر ہے؟ آخر وجہ کیا ہے کہ 75 سال گزر جانے کے باوجود آج بھی یہ ملک وہیں کھڑا ہے جہاں 75 سال پہلے تھا؟ اس ملک کی عوام، یعنی میں اور آپ، ہم اس ملک کے مالک اور اس کے فیصلہ ساز ہیں، ہمیں اپنے حقوق کو پہچاننے اور حاصل کرنے کےلیے جدجہد کرنے ضرورت ہے۔ ہمیں اس حقوق کی جنگ کو خود لڑنا ہے، ورنہ پچھلے 75 سالوں کی طرح اگلے 75 سال بھی گزر جاٸیں گے اور عوام یونہی مشکل فیصلوں کا بوجھ برداشت کرتی رہے گی، اور حکمرانوں کو کوستی رہے گی۔