Is it Jinnah's Pakistan? Insaf Blog | Pakistan Tehreek-e-Insaf

 

بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ  کا 146 واں یوم پیدائش عقیدت و احترام سے منایا جارہا ہے.
برصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد وطن کی شکل میں عظیم تحفہ دینے والے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ  25 دسمبر 1876 کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے.
پاکستان کو آزاد ہوے آج 75 سال 4 ماہ  ہو چکے ہیں لیکن آج تک پاکستان کو "حقیقی آزادی" نہی ملی ، یہ بات ہمیں آج تک نہی پتا تھی کہ پاکستان کیوں ترقی نہی کر پا رہا ہے یہ بات بھی عمران خان نے آ کر ہمیں بتائی.
کافی چیزیں تو عمران خان نے آ کربنا بتاۓ ہی عوام کو ثابت کر کے دکھائی.
  برصغیر اور پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ  کے بعد اگر پاکستان میں کوئی سچا لیڈر آیا ہے ، تو وہ صرف اور صرف عمران خان ہے،میں نے جب سے آنکھ کھولی ہے تب سے دیکھ رہا ہو سب پاکستانی سیاست دان اپنے مفاد کے لیے سیاست میں آتے ہیں،صرف عمران خان کو دیکھا اور پایا جوصرف نظریاتی لیڈرہے صرف پاکستان اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے سوچنے والا لیڈر ہے.
پاکستانی کی تاریخ میں کسی لیڈر نے اتنی جامع، دل میں اترنے والی اور اتنی شاندار باتیں نہیں کی،اس نے  پہلے بتایا مسائل کیا ہے، پھر مدینہ کی ریاست کا ماڈل سمجھایا، پھر مسائل کا حل بتایا اور روڑ میپ دیا. لیکن اس کو کام نہی کرنے دیا گیا.
عمران خان کی حکومت کو جب امریکی سازش کے تحت یہاں کے میر جعفروں کے ساتھ ملکر ہٹایا گیا تب یہ بھی ہمیں پتا چل گیا کہ پاکستان ابھی آزاد نہی ہے ورنہ ایسا کبھی نہ ہوتا. 
 عمران خان کو جب ہٹایا گیا تب پاکستان ترقی کر رہا تھا،عمران خان دور حکومت میں ملکی آمدن میں بھی اضافہ ہوا، 6 ہزار1 سو ارب روپے ٹیکس بھی اکٹھا کیا گیا.
معاشی اصلاحات کے حوالے سے گروتھ ریٹ ثابت کرتا ہے پاکستان پچھلے دوسال میں ترقی کررہا تھا،پی ٹی آئی کی حکومت کے آخری دو سال میں ملک کی آمدنی میں اضافہ ہوا، اکنامک سروے کے مطابق 32 ارب ڈالر ایکسپورٹ بڑھی،عمران خان کی حکومت میں اوورسیز پاکستانیوں نے 31 ارب ڈالر بھیجے، بیرون ملک پاکستانیوں کو اعتماد تھا عمران خان لندن میں گھر نہیں بنا رہا، چار اعشاریہ چار فیصد ایگری کلچر میں گروتھ ہوئی، پہلی دفعہ کسانوں نے پیسے کمائے، پہلے شوگر مافیا کسانوں کو پیسے نہیں دیتے تھے، چھ ہزار 100 ارب ہم نے ٹیکس اکٹھا کیا، لارج اسکیل مینوفیکچر میں 4۔10 فیصد گروتھ ہوئی، ٹیکسٹائل سیکٹر کی ریکارڈ گروتھ ہوئی.
عمران خان دور میں عالمی مارکیٹ میں قیمت 100 ڈالر سے بھی زیادہ فی بیرل تھی تو عوام کے لیے پیڑول 150 روپے اور ڈیزل 146 روپے لیٹر تھا.جو آجکل کی امپورٹڈ حکومت کے دور میں پیٹرول 237.43 اور ڈیزل 247.43 پر مل رہا  ہے، آج ملک ڈیفالٹ کے قریب ہے.
اگر ہم گزشتہ 8 ماہ کا جائزہ لیں تو بہت مایوسی ہوتی ہے.آج پاکستان معاشی بحران کا شکار ہوچکا ہے.روپیہ اپنی قدر کھوئے جارہا ہے.برآمدات میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے.معیشت  ڈوب رہی  ہے اور ٹیکس آمدنی میں بھی کمی دیکھی گئی ہے.
بجلی کے بلوں میں عام صارفین کو اگست میں جون اور جولائی کے مہینوں کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ سو سے 150 فیصد تک اضافی بل موصول ہوئے ہیں اس کا بھوج بھی غریب عوام کے سر پر ڈالا جا رہا ہے، ایک طرف ملک میں معاشی عدم استحکام اور بے یقینی کی صورتحال بڑھتی چلی جارہی ہے،( ایک غیر سرکاری سروے کے مطابق ملک میں 60 فیصد پاکستانی بہتر مستقبل کی امید ختم کرچکے ہیں) جوکہ حکمرانوں کی بد ترین کا کردگی کی عکاسی کرتی ہے جبکہ دوسری جانب ناکام معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان پر واجب الادا قرضوں کا حجم 49 ہزار 200ارب سے تجاوز کرچکا ہے۔ جون کے اختتام پر غیر ملکی قرضہ 18ہزار 160ارب روپے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ملکی معیشت کو درپیش خطرات سے محفوظ بنانے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے اتحادی حکومت کے پاس کوئی معاشی ایجنڈا ہی نہیں۔ مہنگائی نے تمام اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ لوگوں کو سوائے مایوسی کے کچھ نہیں دیا.میڈیا کی رپورٹ کے مطابق قرضوں میں اضافے کے بعد ہر پاکستانی پونے دولاکھ روپے کا مقروض ہوچکا ہے.اب اطلاعات آرہی ہیں کہ آئی ایم ایف کی جانب سے 600 ارب روپے کے مزید ٹیکس لگانے کا حکم بھی صادر کر دیا گیا ہے جس کو فی الحال تو حکومت نے ماننے سے انکار کر دیا گیا مگر ہم یہ بات جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف اپنی بات منوا ہی لیتا ہے.المیہ یہ ہے کہ قوم کو گمراہ کرتے ہوئے خود داری اور خود انحصاری کا بھاشن دینے والوں نے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے.
امپورٹڈ حکومت میں جیسے اتحادی حکومت عوام کی ترجمانی اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کی بجائے آئی ایم ایف کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کام کررہی ہے.آج ملک وقوم جس نہج پر پہنچ چکی ہے.اس میں تینوں جماعتوں (جے یو آئی، پی پی پی اور پی ایم ایل این) کا برابر کا کردار ہے.ہم جب تک اپنے حقیقی نمائندوں کو اقتدار میں نہیں لائیں گے،اس وقت تک یہ بہروپئے مختلف شکلیں اور لبادے بدل کر آتے رہیں گے. پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا روس سے تیل خریدنے سے قبل امریکہ کو آگاہ کرنے کا بیان شرم ناک ہے۔ حکمرانوں نے ملک و قوم کی عزت ،وقار ، سلامتی کو مجروح اور خود مختاری امریکی غلامی میں دے دیا ہے .وا ضح ہو گیا ہے کہ پاکستان کے وزیر خزانہ کی سوچ غلامانہ ہے اور ایسی سوچ کے حامل لوگوں سے ملک و قوم کو خیر کی توقع نہیں۔ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں آئے روز بجلی کے بلوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے.بھاری بھرکم بلوں نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔آف پیک آور فی یونٹ کا ریٹ 16 روپے سے بڑھ کر 26 اور پیک آور کا ریٹ 29 روپے ہو گیا ہے.بلوں میں آئے روز بے تحاشا اضافے کی صورت میں حکومت نے عوام پر مسلسل قہر برسانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے.عوام سے وصول کیے جانیوالے بجلی کے بلوں پر تمام ٹیکس کی شرح تقریباً 22 فیصد تک تھی،جبکہ حالیہ اضافے سے عام صارفین کیلئے یہ شرح 30 فیصد فی یونٹ تک پہنچ گئی ہے.عوام اپنے گھروں کا راشن خریدنے کی بجائے بجلی کے بل ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ سرکاری اداروں کی نجکاری کی خواہش رکھنے والے غریب عوام کو دو وقت کی روٹی اور روزگار سے بھی محروم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر حکمران ادارے ٹھیک نہیں کرسکتے ، اداروں سے کرپشن کا قلع قمع نہیں کرسکتے اور ان کو منافع بخش نہیں بناسکتے تو ان سے ملک چلانے کی امید کیسے کی جاسکتی ہے؟۔ ملک میں معاشی استحکام کیلئے سودی معاشی نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ سودی نظام تمام مسائل کی بنیادی جڑ ہے۔ پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر ملکی معیشت میں ریڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جس کا ملک کی مجموعی ایکسپورٹ میں60 فیصد ،مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ملازمتوں میں 40 فیصد اور ملکی جی ڈی پی میں 8.5 فیصد حصہ ہے. یہ صنعت 15ملین افراد کو ملازمتیں فراہم کرتی ہے.مگر امپورٹڈ حکومت  کے عاقبت نا اندیش فیصلوں کے باعث ہر سیکٹر تباہی کی جانب گامزن ہے. 45 فیصد عوام سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں. آئی ایم ایف کی غلامی کو قبول کرنے میں اتحادی حکومت دونوں برابر کی مجرم ہیں،دونوں نے عوام کی مشکلات میں اضافے کے سوا کچھ نہیں کیا ۔ ایک غیر سرکاری ادارے کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بجلی اور گیس کی مسلسل لوڈشیڈ نگ کے باعث ملک میں 300 سے زائد ٹیکسٹائل یونٹس بند ہونے کے قریب ہیں جس سے 300 ملین ڈالرز ماہانہ ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ میں کمی ہو گی.
سنگین معاشی حالات کی وجہ سے ٹیوٹا کے بعد سوزوکی موٹرز کا بھی عارضی طور پر پروڈکشن پلانٹ بند کرنےکا اعلان کر دیا ہے.
جو 20 کلو آٹے کا تھلہ عمران خان کے دور حکومت میں 1100 کا ملتا تھا آج وہی کراچی میں 2600 اور لاہور میں 2300 کا مل رہا ہے. 
 لوگ مایوس ہوکر پاکستان چھوڑ کر جا رہے ہیں، ساڑھے 7 لاکھ پاکستانی 8 ماہ میں ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں، جو تشویش ناک ہے. 
اب آخر میں میرا سوال ہے ایسی کیا ضرورت پیش آ گیی تھی کہ ایک چلتا ہوا ملک جو ترقی پر گامزن تھا اس کو برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی اور ایسا تجربہ کرنا تھا ؟ اور آج کی پاکستان کی ڈوبتی معیشت کا پھر کون ذمدار ہے؟، اب بھی وقت ہے عوام کی بات سن لیں اور الیکشن جلد کروائیں اور پاکستان کی ترقی کے لیے ایک مستحکم حکوت بنوائیں اور اس کو ترقی کی پٹڑی پر واپس لائیں.