
ماضی قریب میں ہونے والے چینی اور آٹے کے بحران پر وزیراعظم عمران خان نے فروری2020, کو ایف آئی اے کے سربراہ اور انکی 6 رکنی کمیٹی کو اس کی بلا تفریق تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
گزشتہ دنوں اس کمیٹی نے اپنی تحقیقی رپورٹ پیش کی
وزیراعظم نے حسب وعدہ، بغیر رد و بدل ، اسے قوم کے سامنے پیش کردیا ۔
رپورٹ میں کئی بڑے اور غیر متوقع نام دیکھ کر سب ہی چونک گئے ہونگے
کہ اسکا فکر انگیز اور چونکا دینےوالا حصہ، شاید یکسر فراموش کر بیٹھے ہوں ۔حالانکہ یہ تفصیلات ہمارے موجودہ نظام میں موجود بہت سی کمزوریوں کو عیاں کر رہی ہے۔
قصہ مختصر ، اس بحران میں کسی کا حتمی طور پر نام لینا قبل از وقت ہوگا کیونکہ رپورٹ کو پڑھکر پتا لگتا ہے کہ یہ سب خرابی دراصل ایک منظم قانون کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہوئی۔
یا
ایک واضع قانون میں اصلاحات کی جگہ، سالہا سال ذاتی مقاصدکے حصول کیلئےکی گئی ردوبدل نے اسکی افادیت کو یکسر مخفی کر دیا؟
یہ تو 25 اپریل کو ہی پتہ چلے گا۔
کیونکہ وجوہات کچھ یوں دکھائی دے رہی ہیں۔۔۔۔
موجودہ سال میں کاشتکاروں کیلئے گنے کی قیمت کا اعلان دیر سے کیا گیا
اسلئے انہوں نے اسکی کاشتکاری میں پہلے ہی عدم دلچسپی ظاہر کی اور پچھلے سال سے کم رقبہ میں گنا کاشت کیا اور پھر حکومتی طے شدہ نرخ سے مہنگا بیچا،
شوگر مل مالکان نے گھبرا کر ہڑتال کر دی ، ملوں کو تالے لگ گئے ،
لیکن آخر کار انکو کاشتکاروں سے گنا ،منہ مانگی قیمت میں خریدنا پڑا اور۔۔۔۔
پھر انہوں نے بھی مہنگے نرخوں پر عوام کو بیچ کر اپنا منافع کمایا اور ساتھ ہی حکومتی سبسڈی پر برآمد بھی کی یہ سوچے بغیر کہ ملک میں چینی کی قلت ہو سکتی ہے!
اس سب کو دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ یہاں جنگل کا قانون ہے، جس کا جو دل چاہے، وہ کرے، کاشتکار، مل مالکان، قیمت خرید ، چاہیں تو ہڑتال کر دیں!
کوئی پوچھ گچھ، کوئی سسٹم، کوئی قانون اور اسکا احترام۔۔۔ کچھ بھی نہیں!
جیسے پاکستانی شہری نہیں بلکہ مافیا لارڈز ہوں ۔
لیکن اس سب میں ایک بات بخوبی سمجھ آگئی کہ دوبارہ ایسے کسی بحران سے نمٹنے کا صرف ایک ہی حل ہے کہ گنے کے بوائی سے لیکر چینی کی صارفین تک رسائی کا ایک ایسا، غلطی سے مبرا اور جامع قانون بنایا جائے کہ دوبارہ قوم کو مشکل میں ڈالنے کی کبھی بھی کوئی کوشش نہ کر پائے۔
سو ایسے ہی کسی سسٹم کو بنانے کیلئے اسکے تمام نقائص کا علم ہونا ضروری تھا اسلئے وزیراعظم ایف آئی اے کو اس معاملے کی مزید فرانزک انکوائری کرکے ، 25 اپریل تک رپورٹ پیش کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم نے اس رپورٹ میں اپنی پارٹی کے راہنماؤں کے نام موجود ہونے کے باوجود ، کوئی رعائت نہیں برتی بلکہ غیر جانبدارنہ رویہ اپناتے ہوئے،ریاستی نظام کی شفافیت اور قانون کی بالادستی کی ایک روشن مثال قائم کی ہے
ہمیں اب سمجھ لینا چاہئے کہ ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ لا قانونیت اور اقرباء پروری ہے
حکومت اپنی بھرپور کوششوں سے ملک کو بہتر سے بہتر بنا رہی ہے
لیکن عوام کے تعاون کے بغیر اسمیں کامیابی ممکن نہیں!
اور یہ حقیقت ہے کہ قانون تب تک اثر آنگیں نہیں ہو سکتا جب تک ہم خود ایک قوم کے طور پر منظم نہ ہوں ۔