زرائع ابلاغ کی اہمیت اور کشمیر ایشو پر پاکستان کی حیثیت.
دور جدید میں ابلاغ کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والے سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق یہ بات قابل ذکر ہے کہ بلاشبہ اس کو حالیہ دور میں اپنی بات دنیا تک پہنچانے کا ایک بہت ہی موثر اور تیزترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ کسی بھی مسئلے کو منٹوں میں وائرل ہونے کے لئے سوشل میڈیا ایک مؤثر اور مضبوط پلیٹ فارم کے طور پر جانا جاتا ہے، تاہم شومئ قسمت کچھ لوگ جن میں بعض خود کو بہت قابل اور تعلیم یافتہ بھی گردانتے ہیں میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا کی اہمیت اور افادیت کے یا تو منکر ہیں یا اس کی اہمیت سے منہ موڑتے ہیں۔ ۔ ۔
انڈین آرمی کے ایک ریٹائرڈ آفیسر کا بیان سنا تھا، کہ انڈین آرمی پاکستان آرمی کے مقابلے میں بہت مضبوط اور مستحکم اور طاقتور ہے، لیکن پاکستان آرمی کا واحد ادارہ جو کہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز یا آئی ایس پی آر کے نام سے کام کرتی ہے، اس کا جواب اور توڑ انڈیا کے پاس نہیں ہے، نہ ہی انڈین آرمی کے اس اس طرح کا کوئی ادارہ موجود ہے۔
یہ بیان دو برس پہلے فروری میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگی صورتحال پیدا ہونے کے تناظر میں دیا گیا تھا، جس وقت آئی ایس پی آر روزانہ کے حساب سے جنگی اور بارڈر صورتحال دنیا اور میڈیا کے سامنے پیش کر رہی تھی، جبکہ انڈیا کی طرف سے اس طرح کا کوئی ادارہ میڈیا کے لئے دستیاب نہیں تھا،
ٹرینڈ، اوپینین اور پرسپشن TOP یا سادہ الفاظ میں میڈیا کے اس دور میں پروپیگنڈہ وار جس طرح کام کرتی ہے، یہ میں وثوق سے کہتا ہوں، کہ یہ ہتھیاروں سے بھی زیادہ مہلک ہوتی ہے،
مسلمانوں نے دوسری صدی ہجری میں اندلس حالیہ اسپین فتح کرنے کے بعد پورے یورپ پر اسلامی نظام نافذ کرنے کی ٹھانی، تو ان کے سامنے فرانس کھڑا تھا، تاہم یہ یقینی امر تھا، کہ سیلاب کی مانند پھیلنے والے مسلم افواج کے سامنے کوئی بھی کھڑا نہیں ہورہا تھا، دنیا کی 15 معرکوں میں سے ایک معرکہ بلاط الشہداء جو یورپ کی فتح کا دروازہ تھا، اور جسے مسلمان دس دن کی لڑائی کے بعد جیت بھی گئے تھے، کہ عین لڑائی کے آخری وقت دشمن کی اڑائی ہوئی ایک افواہ نے مسلم افواج کے جمے ہوئے قدم اکھیڑ دئے، اور یوں یورپ کی فتح مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی۔۔۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے، تو ہر جنگ سے پہلے جنگ پر ابھارنے یا دوران جنگ سپاہیوں کا حوصلہ بلند رکھنے کے لئے جذباتی اشعار سنائے جاتے تھے، اسلامی تاریخ بھی اس معاملے میں کافی واضح ہے، جہاں پر مسلمان شعراء جن میں حتی کہ بعض خواتین بھی شامل ہوتی تھی، مجاہدین اسلام کا حوصلہ بلند رکھنے کے لئے اشعار سناتے تھے، اور ایسے شعراء کو معاشرے اور فوج میں ایک خاص مقام حاصل ہوتا تھا، اسلامی تاریخ کے بعد اگر ہم پشتون تاریخ کی طرف آتے ہیں، تو مشہور معرکہٕ میوند میں "افغان ملالئ" کا کردار اشعار ہی کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے، جس نے مشہور ٹپہ " کہ پہ میوند کی شہید نہ شوے، گرانہ لالیہ بے ننگئ لہ دے ساتینہ" سنانے سے مجاہدین کے ولولے وجذبے کو گرمایا اور یقینی شکست فتح میں تبدیل ہوگئی، 1965 کی جنگ میں "اے راہ حق کے شہیدوں، وفا کے تصویروں" بھی شعر ہی تھے، جو پاک فوج کے جوانوں کے عزم و حوصلے کو تقویت دیتے رہے۔ ۔ ۔
پی ٹی آئی کی بطور پارٹی سوشل میڈیا پر سب پارٹیوں سے پہلے اجارہ داری اور قبضہ رہا ہے، اور اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے، تو پی ٹی آئی کی کامیابی میں سوشل میڈیا کا ایک بہت بڑا رول رہا ہے۔ ۔ ۔ پی ٹی آئی کی دیکھا دیکھی دوسری پارٹیوں نے بھی اپنی سوشل میڈیا ٹیمیں بلکہ نیٹورک بنالئے۔ ۔ ۔ تاکہ وہ بھی اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔ ۔ ۔ سوشل میڈیا کی اہمیت کا اندازہ آپ اس سے بھی لگا سکتے ہیں، کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک ٹویٹ سے سونے اور تیل کی مارکیٹوں پر براہ راست اثر پڑ جاتا تھا۔ ۔ ۔ اور ان کی صدارت کے آخری دنوں میں کچھ مسائل پر اس کی الگ نقطہ نظر کے سبب اس کو ٹوئٹر اکاؤنٹ معطل کرنا پڑا ۔ ۔ ۔
میڈیا کی اسی اہمیت کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان نے مسئلہ کشمیر کے حالیہ بحران کے روز اول سے میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا کے ذریعے اس مسئلے کو اجاگر کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ ۔ ۔اور وہ اسے دنیا کے نظروں میں لانے میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے ہے۔ کشمیر کے حالیہ بحران، کشمیریوں سے اظہار یکجہتی اور انڈیا کے ساتھ کشیدہ اور جنگی حالات کے پیش نظر قوم کو اس موقع پر "موبلائز" رکھنے کے لئے اس طرح کے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ ۔ ۔ تاہم بعض میرے ساتھی اس پر بھی اپنے عقل کے گھوڑے دوڑا دوڑا کر تھکا چکے ہیں اور اس بات کا مذاق اڑا رہے تھے کہ "آخر 30 منٹ کے لئے کھڑا ہونے سے کیا ہوگا"
اس سے اور کچھ نہیں ہوا لیکن دنیا کو ایک پیغام گیا، کہ ہم کشمیریوں کے حق خودارادیت میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں، اور ہم بحیثیت مجموعی ساری قوم اس بات پر متفق ہے۔ ۔ ۔ اس سے ہم نے ایک اور تاثر بھی دنیا کو دینا ہے کہ ہم ایک مہذب اور امن پسند قوم ہے، اور ہم اپنے سارے مسائل کا حل امن سے چاہتے ہیں ورنہ جنگ کی صورت میں 28 فروری نہ تو انڈیا کے ذہن سے مٹا ہے اور نہ باقی دنیا کے۔
کشمیر ایشو کو عالمی سطح پر مؤثر انداز میں پیش کرنے کا کریڈٹ اگر کسی کو جاتا ہے، تو وہ بلاشبہ وزیراعظم عمران خان ہی ہے، جس نے ہر عالمی فورم پر اس کو ہائی لائٹ کیا، اب پاکستان کا عالمی فورم پر کشمیر ایشو پر سٹینڈ کیا ہے، جس کی ایک چھوٹی مگر واضح مثال سابق امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے اس معاملے پر ثالث کا کردار ادا کرنے کی خواہش تھی۔ یہ سب کو معلوم ہونا چاہیے، پاکستان کا سٹینڈ اس معاملے میں اخلاقی، سفارتی اور سیاسی ہے، بالفاظِ دیگر پاکستان مسئلہ کشمیر کو اپنی مرضی سے نہیں، بلکہ کشمیریوں کے امنگوں کے مطابق حل کرانے کا متمنی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عالمی سطح پر کشمیر ایشو کو ہائی لائٹ رکھنے کا طریقہ کار کیا ہوگا، تو یہ بات واضح ہے، کہ اس کے لئے ذرائع ابلاغ کے سارے وسائل و ذرائع استعمال ہوسکتے ہیں، ہمارے بچپن کے زمانے میں رؤف خالد نے اس ایشو پر دو ڈرامے "انگار وادی" اور "لاگ" ڈرامے بنائے تھے، جو عوام میں بےحد مقبول تھے۔ ہاتھوں کی تین کلومیٹر زنجیر بنانے سے کشمیر آزاد نہیں ہوتا، اسی طرح ایک منٹ کی خاموشی بھی آزادی کے لئے اختیار نہیں کی جاتی، بلکہ حقیقت میں یہ سب طریقے کشمیر ایشو کو عالمی سطح پر ہائی لائٹ رکھنے کے لئے ہی استعمال ہوتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں آئی ایس پی آر کی جانب سے کشمیر کے حالات پر ریلیز ہونے والے گانے "جا چھوڑ کے میری وادی" پر چند لوگوں کی طرف سے جس طرح تنقید کی گئی، میرے خیال میں یہ لوگ یا تو تاریخ سے ناواقف ہیں یا آئی ایس پی آر کے کردار سے، یہ لوگ عالمی دنیا میں پاکستان کے کشمیر ایشو پر موقف سے بے خبر ہیں یا میڈیائی دور میں پروپیگنڈہ وار کے طور طریقوں سے۔ یا قصداً ان معاملات پر آنکھیں بند کر کے پاکستان آرمی کے اوپر ہونے والے کسی بھی تنقید کو مزید ہوا دے رہے ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ کسی بھی ادارے پر جائز تنقید وہ بھی برائے اصلاح کا میں کبھی بھی مخالف نہیں ہوں، بلکہ خود بھی اداروں پر اس طرح کا تنقید کرتا ہوں، تاہم اگر یہ تنقید صرف تنقید کے لیے کی جاتی ہو، تو یہ ایک نقصان دہ رجحان ہے، اور میرے خیال میں دانشورانِ قوم کو اس سے بچنا چاہیے، قوم کو ہر ایشو پر تقسیم رکھنے کی بجائے یکجا اور متحد رکھنے کی ضرورت ہے، میرے خیال میں آئی ایس پی آر اپنا کام بخوبی نبھا رہی ہیں، ہمیں اپنے حصے کا کام ایمانداری سے نبھانا ہوگا۔