
کئی برس پہلے ٹیلیویژن پر چینل گھماتے ہوئے ایک جگہ عمران خان کو بولتے دیکھا تو سوچا کہ سن لوں کیا کہہ رہا ہے۔ ویسے سیاستدانوں کی باتیں سننے کو دل نہیں کرتا، بے روح، سطحی، عموماً غلط بیانی یا پھر جزوی سچائی پر مبنی جو جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔۔
خیر خان صاحب بلوچستان کےایک غریب خاندان کا واقعہ بتا رہے تھے جنہیں خشک سالی کے باعث اپنا علاقہ چھوڑنا پڑا۔ انہوں نے عمران خان کو بتایا کہ وہ اپنی ایک معذور بیٹی کو مرنے کے لیے ویران علاقے میں چھوڑ آئے ہیں کیونکہ نہ اس کے لیے کھانے کا بندوبست کر سکتے تھے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی سواری تھی جس پر اسے اٹھا کر دربدر پھر سکتے تھے۔
یہ واقعی سناتے ہوئے عمران خان کے چہرے پر جو درد اترا تھا وہ اسی طرح دل پر نقش ہے جس طرح اس کا سنایا ہوا واقعہ درد کا سلگتا انگارہ بن کر میری ذات سے چپک گیا۔
اس کے بعد خان صاحب کی کئی تقاریر سنیں اور یہی دیکھا کہ سیاسی باتوں سے ہٹ کر جب وہ پاکستان میں غربت پر بولتے تھے تو ان کے چہرے پر غریبوں کے لیے بہت کچھ کرنے کی خواہش واضح نظر آتی تھی اور ان کی ذات سے خود پسندی کی وہ باریک تہہ اتر جاتی تھی جسے شاید وہ اپنا شرمیلا پن چھپانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
میری بہت خواہش تھی کہ عمران خان کو اقتدار ملے اور میں دیکھ سکوں کہ کیا اس کی منزل فقط کرسی تھی یا اس نے آج بھی اس بے بس خاندان کو یاد رکھا ہوا ہے جو غربت کے باعث اپنی معذور بیٹی کو بھوکا پیاسا مرنے کے لیے ویرانے میں چھوڑ آیا تھا۔ کہتے ہیں کہ اقتدار انسان کو بدلتا نہیں بلکہ اس کی اصلیت کو عیاں کر دیتا ہے۔ مجھے خان صاحب کی اصلیت جاننے میں بہت دلچسپی تھی۔
پھر وقت گزرتا گیا اور خان صاحب کو اقتدار مل گیا۔ حکومت میں آنے کے بعد بھی ان کی ہر تقریر میں معاشرے کے نچلے طبقے کا ذکر ضرور ہوتا تھا۔ وہ کبھی چین کی معاشی ترقی کی مثال دیتے تو اس کا بنیادی نکتہ یہی ہوتا تھا کہ اس ملک کے حکمرانوں نے اتنے کروڑ افراد کو غربت سے نکالا ہے۔ جب وہ کرپشن کے خلاف بات کرتے اور اس میں نواز شریف یا زرداری کا ذکر ہوتا تو کئی بار اس بات کا غصہ نظر آتا تھا کہ اس کرپشن کی وجہ سے ملک کے نچلے طبقے کے لیے کچھ نہیں کیا جا سکا۔
اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان اپنی سادہ دلی کے باعث ملکی مسائل کا حل بھی بہت آسان سمجھتے تھے۔ دھیرے دھیرے انہیں سمجھ آنے لگی کہ جن مافیاز کا ملکی وسائل پر قبضہ ہے وہ بہت طاقتور ہیں اور ان سے کچھ حاصل کر کے غربت مٹانے کیلئے وقف کرنا ایک امر محال ہے۔ وہ شاید اپنے دل کا درد اپنے ساتھیوں کی ذات تک پوری طرح پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
پھر بھی وہ محدود ملکی وسائل میں اس طبقے کے لیے کچھ نہ کچھ وقف کرنے کے لیے مضطرب نظر آئے جو اس سماج کے معاشی جام کی تلچھٹ پر پڑا ہوا تھا۔ شاید سب سے زیادہ محروم طبقہ وہ ہے جس کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہو اور جس کے سر پر چھت نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عمران نے مرکز کے ساتھ ساتھ جن صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی، وہاں پناہ گاہوں کا سلسلہ شروع ہوا تاکہ سب سے نچلا اور سب سے زیادہ کچلا ہوا طبقہ کم از کم پیٹ بھر کر کھانا کھا سکے اور رات کو کسی چھت کے نیچے نرم بستر پر سو سکے۔
احساس پروگرام بھی ان کے دور میں شروع کیا گیا جس کا بنیادی فوکس معاشرے کا نچلا طبقہ ہے، اسے دھیرے دھیرے بڑھا کر لوئر مڈل کلاس تک پھیلا دیا گیا لیکن مرکزی خیال محروم طبقات کی دستگیری تھا۔ جب عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں تو دراصل فلاحی ریاست کا تصور ان کے ذہن میں ہوتا ہے۔ اس کا مذاق اڑانے والوں کو شاید یہ اصطلاح فرسودہ نظر آتی ہے وگرنہ جب خان صاحب اس کی وضاحت کرتے ہیں تو وہ جدید فلاحی ریاست کے ہی خدوخال بیان کر رہے ہوتے ہیں۔
عمران خان جیسا بظاہر خود پسند شخص جب سعودی شہزادے کی گاڑی ڈرائیو کر رہا ہوتا ہے تو اس کے چہرے پر طمانیت نظر آتی ہے اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ذہن میں کہیں نہ کہیں بلوچستان کی معذور بچی موجود ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ دوسرے ملکوں سے قرض اور امداد کی بھیک مانگ کر اگر وہ ایسے المیوں کو روک سکتا ہے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ایسے لمحات میں اس کے اندر عبدالستار ایدھی کی روح حلول کر گئی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ وہ یوٹرن لے کر اپنا مذاق بنوانے کو بھی تیار ہے، اسٹیبلشمنٹ کا حمایت یافتہ ہونے کا الزام بھی سہہ لیتا ہے، سیلیکٹڈ کی چھپتی بھی سن لیتا ہے کیونکہ اس کا فوکس محروم طبقہ ہے جسے وہ ہر صورت غربت سے نکالنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ سب الزام سر پہ لینے کو تیار نظر آتا ہے۔ یہ اس کی سادہ دلی ہو سکتی ہے اور ممکن ہے کہ وہ سمجھوتوں کی گرد میں اسقدر کھو جائے کہ اپنی منزل کو جانے والا رستہ بھی بھول جائے۔ لیکن پھر بھی وہ ان شرفاء اور مال و زر اکٹھا کرنے والوں سے ہزار گنا بہتر ہو گا جن کے دل و دماغ کو آج تک محروم طبقوں کا خیال چھو کر ہی نہیں گزرا۔
اب جبکہ کورونا کی وبا تیزی سے ملک میں پھیل رہی ہے، عمران خان نہ ہی مکمل لاک ڈاؤن کے لیے تیار ہے اور نہ ہی ملک گیر کرفیو پر آمادہ ہوتا ہے۔ اس کے چشم تصور میں شاید آج بھی بلوچستان کی معذور بچی کی بھوک اور پیاس سے بے نور ہوتی آنکھیں چپکی ہوئی ہیں اور وہ نہیں چاہتا کہ پورے ملک کو بند کر کے ایسی بےشمار آنکھیں اسے دیکھنی پڑیں۔
جو لوگ ایک دو ماہ کا لاک ڈاؤن گھر بیٹھے باآسانی برداشت کر سکتے ہیں ان کا نکتہ نظر بھی درست ہے کیونکہ اس وبا کو روکنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے لیکن دوسری جانب وہ طبقہ ہےجس کے لیے کما کر گھر جانا ہر روز کی آزمائش ہوتی ہے جس میں انہیں ہر صورت کامیاب ہونا ہوتا ہے کیونکہ شام کے وقت ان کے بچوں کی آنکھوں میں بھوک اترنا شروع ہو جاتی ہے۔ اگر ملک بند ہو گیا تو یہ بھوکی آنکھیں بے نور ہونے لگیں گی۔ عمران خان سب سے زیادہ اسی بات سے خوفزدہ ہے کیونکہ وہ جو مقصد کے کر اقتدار میں آیا تھا، یہ صورتحال اس کے یکسر منافی ہے۔
کورونا وائرس ایک قدرتی آفت ہے جس کے سامنے خان صاحب کے خواب بھی دم توڑنے لگے ہیں۔ اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ نوجوان اٹھ کھڑے ہوں اور اس بات کو یقینی بنائیں گئے ہر صورت میں کوئی بچہ گھر میں بھوکا نہیں سوئے گا اور کوئی باپ انہیں بھوک سے بلکتا دیکھ کر رسی سے نہیں جھول جائے گا۔ یہ عمران خان کا نہیں بلکہ اس قوم کے نوجوانوں کا امتحان ہے۔ اگر وہ اس میں کھرے اترے تو یہ وبا پاکستان کا زیادہ نقصان کیے بغیر گزر جائے گی اور اس کے صلے میں یہ ملک عزیز باقی دنیا کے لیے بھی ایک مثال بن جائے گا۔