Ehsaas Emergency - A program free of nepotism -Insaf Blogf | Pakistan Tehreek-e-Insaf
Ehsaas Emergency Program

 

احساس پروگرام اپنے نام کی طرح اپنے کام میں بھی کھرا ہے لیکن چند لوگوں کو اس کے شفاف ہونے پر در پردہ بہت اعتراضات ہیں ۔ جیسے ہی حکومت نے احساس ایمرجنسی پروگرام میں رجسٹر ہونے کا لائحہ عمل پبلک کیا ، اپوزیشن جماعتوں ، نامور صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے اس پروگرام کے طریقہ کار کو تنقید کا نشانہ بنایا ، شام سات بجے سے رات گیارہ بجے تک کے پروگراموں میں اس لائحہ عمل کو غلط قرار دینے کے لیے بہت جتن کئے گئے۔ " یہ طریقہ انتہائی پچیدہ ہے "، " اس طریقہ کے تحت غریب تک پیسوں کی ترسیل تک بہت دیر لگے گی " ایسے ایسے بیانات اور لاجکز پیش کی گئیں کے عقلِ سلیم بھی سن کر دنگ رہ جائے ۔ اور دوسری جانب غیر ملکی میڈیا وزیراعظم کے احساس ایمرجنسی پروگرام کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا امدادی پیکج قرار دے رہا ہے ۔
اور بلاشبہ یہ پروگرام تعریف کا مستحق ہے ۔ وزیراعظم پاکستان کی احساس پروگرام کی ٹیم بالخصوص ثانیہ نشتر صاحبہ نے اس پروگرام کو بہت محنت اور لگن سے ڈیزائن کیا ہے ، اس پروگرام کے ڈیٹا اکھٹا کرنے میں مکمل شفافیت برتی ہے ۔ میں نے اور میری طرح کے کئی لوگوں نے رضاکارانہ طور پر ، دیہی سطح پر مستحق لوگوں کو احساس ایمرجنسی پروگرام میں رجسٹر کرنے میں ان کی مدد کی ہے ، اور اس سلسلے میں ہمارا واسطہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں ، کرونا وائرس کی وجہ سے بے روزگار ہونے والے اور شعبدہ باز لوگوں سے ہوا۔ کون مستحق ہے اور کون نہیں ، اس بات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں تھی ، لیکن احساس پروگرام کے ڈیٹا نے اس مسئلے سے چھٹکارا دلا دیا ۔ مستحقین کے رجسٹر ہونے پر انہیں اس پروگرام کے اہل ہونے کا جواب موصول ہوا ، اور غریبوں کا حق مارنے والے شعبدہ بازوں کو اس پروگرام کے نااہل ہونے کا جواب موصول ہوا ۔ ایک تیسری قسم ان لوگوں کی تھی جن کے مستحق اور مستحق نہ ہونے پر شبہ تھا ، ان کو کوائف کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد مطلع کرنے کا جواب موصول ہوا ۔
اس سے زیادہ آسان اور سیاسی مداخلت سے پاک طریقہ کار اور کیا ہو سکتا ہے ؟ جو لوگوں کے گھر بیٹھے ، ایک ایس ایم ایس کرنے سے نہ صرف ان کی درخواست حکومت کو موصول ہو جاتی ہے بلکہ اس کا بروقت جواب بھی انہیں موصول ہو جاتا ہے ۔ اس کےلیے انہیں کسی دفتر کے دھکے کھانے پڑے اور نہ ہی کسی سیاسی عہدیدار کی غلامی کرنا پڑی ۔ ماضی میں دیہی علاقوں کے مستحقین کو حکومتوں کے ان پڑھ سیاسی کارکنوں نے بھی عتاب کا شکار بنایا ، امدادی رقوم کو اپنے سیاسی حلقہ احباب اور خدمت گزاروں میں بانٹا۔  اس بار انہیں اس قسم کی کسی ناانصافی کا سامنا کرنا پڑا ۔ 
شہباز شریف جب سے لندن سے واپس آئے ہیں ، بلدیاتی انتخابات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں جو کرونا وائرس کو کنٹرول کرنے کی وجہ سے موخر کئے گئے ہیں ۔ اور اب انہوں نے احساس ایمرجنسی پروگرام کی کامیابی کو بلدیاتی اداروں کی بحالی سے مشروط کر دیا ہے ۔ بلاشبہ بلدیاتی ادارے کسی بھی ملک کی ترقی میں معاون کردار ادا کرتے ہیں ، لیکن اس صورتحال میں بلدیاتی الیکشنز کا قیام کرنا ایک بین الاقوامی سطح کی حماقت ہے ۔ اور پچھلی حکومت کے منتخب کردہ بلدیاتی نظامِ حکومت چوری اور ھیرا پھیری کے مروجہ نظام پر مشتمل ہے ۔ ماضی کے ان ہی اداروں کی بدولت حقدار اپنے حق سے محروم رہے ، اقرباء پروری کو پروان چڑھایا گیا ۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام آٹھ لاکھ سے زائد لٹیروں کی بھینٹ چڑھا ، اور ان آٹھ لاکھ لٹیروں میں بیوروکریٹس کی بیگمات اور  بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے عہدیداران سر ِ فہرست ہیں ۔ اس پروگرام پر مزید تحقیقات ہونے کی اشد ضروری ہے کیونکہ یہ پروگرام ابھی تک ایسے غیر مستحقین لوگوں کی سر پرستی کر رہا ہے جن کی ماہانہ آمدنی لاکھوں میں ہے ، اور حکومت کی طرف سے پینشن لینے والی خواتین ۔ یہ پروگرام ماضی کی حکومتوں میں پروان چڑھا ہے ، جنہوں نے اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے ، اور ان کے کارکنوں نے ہر سطح پر ایک رسم سمجھ کر اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کی ہیں ۔ ان جماعتوں کو غریب کا کوئی احساس نہیں تھا ، صرف اور صرف اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے غریب کا نام استعمال کرتے رہے ۔ ان چوروں اور لٹیروں نے چوری اور ھیرا پھیری کیلئے ایک جامع نیٹ ورک تشکیل دیا تھا جس کا انفراسٹرکچر ایوانِ بالا سے لے کر دیہی علاقوں تک پھیلا ہوا تھا ، جو غریب کا نام استعمال کر کے غریب کا ہی استحصال کر رہے تھے ۔ اب شہبازشریف کو غریب کا نہیں اسی مربوط انفراسٹرکچر کے ٹوٹ جانے کا صدمہ ہو رہا ہے ۔ اور ان کی جماعت نے احساس پروگرام کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہا، لیکن نتیجہ صفر کیونکہ حکومت نے اس پروگرام کی تشہیر نہایت عمدہ طریقے سے کی جس کی بدولت لوگوں کو بیوقوف بنانے والے معزز لوگ ناکام ہو گئے ۔
احساس ایمرجنسی پروگرام ایک جامع اور مکمل فعل پروگرام ہے جو اب تک سترہ ہزار احساس کیش پوائنٹس کی مدد سے اربوں روپے مستحقین میں بانٹے جا چکے ہیں اور یہ حکومت مزید کیش پوائنٹس کو قائم کرنے کیلئے کوشاں ہے ۔ ثانیہ نشتر صاحبہ ان پوائنٹس کو مانیٹر کر رہی ہیں اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر روزانہ کی بنیاد پر عوام الناس کو اس پروگرام کے متعلق آگاہی فراہم کر رہی ہیں ، نیوز چینلز پر عوام کی رہنمائی کیلئے ان کے ویڈیو پیغامات چلائے جا رہے ہیں ۔ اس پروگرام میں ھیرا پھیری کرنے والے اور رقوم میں کٹوتی کرنے والے کئی متعدد ملزم گرفتار ہو چکے ہیں ۔ 
شہبازشریف کے مطابق ان کیش سنٹرز کی وجہ سے ملک میں کرونا مزید پھیلے  گا لیکن بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے کرونا وائرس پر قابو پایا جا سکتا ہے ، ان کے ذرائع نے شاید ابھی تک انہیں یہ نہیں بتایا کہ ان کیش سینٹرز پر عوام کا ہجوم نہیں لگے گا بلکہ ہر اہل شخص کو ایک مخصوص ایس ایم ایس کیش سینٹر آ کر پیسے وصول کرنے کیلئے ایک تاریخ بتائے گا۔ اور مختلف لوگوں میں مختلف تاریخ تقسیم ہو گی۔ سنٹرز میں آنے والی خواتین کو ایک مخصوص فاصلے پھر بٹھایا جاتا ہے ۔ 
احساس ایمرجنسی پروگرام ہر لحاظ سے ایک شفاف اور غریب دوست پروگرام ہے ، جس میں حکومت کی اپنی سیاسی جماعت کی مداخلت بھی ممکن نہیں ۔ اس پروگرام پر تنقید کرنے والے لوگ غریبوں کے خیرخواہ نہیں ہیں بلکہ سیاسی کاروباری افراد ہیں جن کے سیاسی کاروبار کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے ۔ 
اقبالؒ نے ان لوگوں کے بارے میں خوب فرمایا ہے :
ہے مریدوں کو تو حق بات گوارا لیکن 
شیخ و ملا کو بری لگتی ہے درویش کی بات