
انڈیا کی ریاست راجستھان میں چناؤ کے لیے ملک کی بڑی، پرانی جماعت کانگریس نے عوام سے چندہ جمع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے دو فائدے ہیں عام آدمی تک رسائی، الیکشن میں بلیک منی کی روک تھام۔
پاکستان میں بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اپیل کی ہے کہ ڈیم بنانے کے لیے چندہ دیں۔ پاکستانیوں بالخصوص افواج پاکستان، اوورسیز پاکستانیوں نے دل کھول کر عطیات دیں اور اب تک تقریباً 3 ارب، 30 کروڑ سے زائد روپے جمع ہو چکے ہیں۔ ہمارے ملک کو اس وقت پانی کے سنگین بحران کا سامنا ہے، اسلام آباد جیسے شہر میں پانی ناپید ہو چکا ہے، کراچی میں ٹینکر مافیا کی کہانیاں سب سنتے آرہے ہیں اور چند سال پہلے بلوچستان کی قحط سالی ابھی بھی سب کو یاد ہوگی
ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارا پانی ہر سال ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ چندوں سے ڈیم نہیں بنتے ، حکومتی سطح پر فنڈز کی بروقت فراہمی لازمی جز ہے اور ہمیں یہ پورا یقین رکھنا چاہیے کہ صحیح پلاننگ سے اس منصوبے کو پورا کیا جائے گا۔
ہمارے ملک میں بہت کم مواقعوں پر اپوزیشن نے تعمیری تنقید یا اصلاحی مشورے دئیے ہیں، زیادہ تر ان کی ترجیحات حکومت کے ہر کام پر تنقید ہی رہے ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کچھ پڑھے لکھے طبقے کے لوگ ملک کے دو بڑے منصب پر فائز اہم شخصیات کی اپیل کا مذاق اڑا رہے ہیں اور مسلسل اسے اپنی تنقید سے متنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میڈیا کے کچھ صحافی بھی اس کا مزاق اڑاتے ہوئے پائے گئے ہیں جس سے خدشہ یہی ہے کہ عام عوام کی اس بڑے مقصد اور مستقبل کے میگا پراجیکٹ میں دلچسپی کم ہو جائے گی۔
اب ہمارے پاس دو آپشن ہیں
1۔ اپنی استطاعت کے مطابق ڈیم فنڈ کے لیے چندہ دیں اور باقی کام حکومت کو کرنے دیں
2۔ ہاتھ میں کشکول لے کر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی تنظیموں کے در پر ڈیرہ ڈال دیں ان سے سود پر قرض لیں اور پھر اس قرض و سود کو واپس کرنے کے لیے مزید قرض لیں چاہیے اس کے بدلے ہمیں اپنی املاک ، قومی اثاثے ہی کیوں نہ گروی رکھنا پڑے۔