
علیمہ خان کی جائیدادیں۔۔۔
کچھ نیوز چینلز کے بقول عمران خان کی بہن علیمہ خان کی امریکہ میں بھی ایک جائیداد سامنے آئی ہے جو انہوں نے ڈکلیئر نہیں کی ہوئی۔ اس سے پہلے علیمہ خان نے ایمنیسٹی سکیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دبئی میں اپنی اَن ڈکلیئرڈ جائیدادوں کو ظاہر کرکے ان پر بھاری جرمانہ ادا کیا۔
تحریکِ انصاف کے سپورٹرز علیمہ خان کے حق میں جو دلیل دیتے ہیں وہ یہ کہ وہ کبھی بھی پبلک آفس ہولڈر نہیں رہیں کہ وہ قومی خزانے میں کوئی خرد برد کرسکیں اس لیے ان کا معاملہ الگ ہے۔ لیکن یاد رہے کہ علیمہ خان پاکستان کے دو بہت بڑے چیرٹی پراجیکٹس شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی میانوالی کے لیے دنیا بھر میں فنڈ ریزنگ کے لیے جاتی ہیں اور ان اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بھی شامل ہیں۔
اس لیے میرے نزدیک یہ معاملہ قومی خزانے میں خرد برد سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ اس کا حل بہت سادہ ہے کہ علیمہ خان سے ان کا سورس آف انکم پوچھا جائے جیسا کہ ہم چورِ اعظم نواز شریف، زرداری اور دیگر کے متعلق مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ اور یہ لوگ کبھی اپنی کھربوں کی جائیدادوں کا سورس آف انکم نہیں بتاسکے۔ الٹا چورِ اعظم نواز شریف یہ کہتے رہے کہ اگر ان کے اثاثے ان کی آمدن سے زائد ہیں تو کسی کو کیا ہے۔
اس طرح اگر علیمہ خان کے اثاثے جائز کمائی سے بنے ہیں تو ان کے پاس ایک ایک پائی کا حساب ہوگا کہ انہوں نے کن ذرائع سے کمائی کی۔ اگر وہ آمدنی کے جائز ذرائع ثابت کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو اس کا سیدھا سادھا مطلب ہے کہ نواز و زرداری کی طرح ان کی دال میں بھی کالا بلکہ ساری دال ہی کالی ہے۔
عمران خان اگر کرپشن کے خلاف سیریس ہیں تو سب سے پہلے اس کیس کو سیریس لیں اور منطقی انجام تک پہنچائیں۔ اگر امریکہ میں جائیداد والی خبر جھوٹی ہے تو پھر غلط خبر دینے والے چینلز پر بھاری جرمانے ہونے چاہییں کہ اس خبر سے تین ہسپتال اور ایک تعلیمی ادارہ متاثر ہورہا ہے۔ اور اگر یہ خبر درست نکلتی ہے اور علیمہ خان اپنی آمدنی کا کوئی واضح ذریعہ نہیں بتا سکتیں تو اس صورت میں انہیں مثالِ عبرت بنایا جانا چاہیے۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے۔ دیکھتے ہیں تحریکِ انصاف اور عمران خان کیا کاروائی کرتے ہیں۔ (محمد تحسین)