کراچی کا مئیر کون ہونا چاہیئے اور کس پارٹی سے ہونا چاہیئے؟؟ | Pakistan Tehreek-e-Insaf

 

ویسے تو میرا تعلق پی ٹی آئی سے ہے لیکن جہاں تک بات ہے کراچی کے حقوق کی، کراچی کے مسائل کی، تو اس تناظر میں کراچی سے سب زیادہ مخلص کون ہو سکتا ہے؟؟

پی ٹی آئی جس کو کراچی والوں نے 2018 میں بڑا مینڈیٹ دیا تب کراچی کے مسائل کیا تھے ؟ اور عمران خان نے ان کے حل کے لئے کیا کیا؟؟

ایم کیو ایم جس کو کراچی والوں نے اپنا ہمیشہ مسیحا سمجھا انہوں نے کراچی کو کیا دیا ؟؟

پیپلزپارٹی جس کی صوبے میں حکومت تھی کراچی کے لئے کیا کیا؟؟

جماعت کراچی کے مسائل کے حل کے لئے کتنا دل گردہ رکھتی ہے کہ پیپلزپارٹی سے لڑ جھگڑ سکے اور کراچی کے حقوق حاصل کر لے؟؟

جب کراچی نے پی ٹی آئی کو دل کھول کر مینڈیٹ دیا تو کراچی مسائلستان بنا ہوا تھا۔ سیوریج اور ڈرینیج کے سنگین مسائل تھے، تقریبا پورے کراچی کی ہر گلی کا گھٹر ابل رہا تھا، کراچی کچرے اور بدبو کا شہر بن چکا تھا، انفراسٹرکچر تباہ تھا، پانی کی شدید کمی، ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام نہیں، اتنے بنیادی مسائل جس کے حل کے اختیارات صرف  صوبائی حکومت کے پاس تھے مگر ان کی اس شہر کے مسائل حل کرنے کی نیت کبھی تھی ہی نہیں، ایسے میں عمران خان نے ایس ڈی جی فنڈز  کے تحت شہر بھر میں حلقہ جاتی سطح پر ترقیاتی کام کروائے اور لوگوں کے چھوٹے بڑے مسئلے حل کروائے، مثلاً سیوریج لائنز ڈلوانا اور گلیاں وغیرہ پکی کروانا۔۔۔ ایم این ایز کے ذریعے پروجیکٹس ایلوکیٹ کروائے گئے تاکہ بنیادی مسائل حل کئے جا سکیں، اور ان فنڈز سے سب سے پہلے صدیوں پرانی اور چوک گٹر پائپ لائنس نئی ڈالی گئیں، پھر گلیوں کی مرمت کا کام شروع کیا گیا، اور پھر ہر حلقے میں نئے روڈز کی تعمیر کی گئی، اور اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے کہ اس پروگرام میں صرف پی ٹی آئی کے منتخب نمائندوں کے حلقے ہی  نہیں تھے بلکہ ایم کیو ایم کو بھی فنڈز جاری کیے گئے۔ منگھو پیر روڈ جو تجارت و ترسیل کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے صدیوں سے اس روڈ کا برا حال تھا مگر  سندھ حکومت نے اس طرف کبھی توجہ نہیں دی،  فیڈرل حکومت نے اس روڈ کی از سر نو تعمیر کروائی، نارتھ ناظم آباد میں 3 فلائی اوورز کے ذریعے عوام کو عام ٹریفک کے لیے 15 کلومیٹر طویل سنگل فری کاریڈور مہیا کیا گیا۔ ، گرین لائن منصوبہ جو کہ پچھلی وفاقی حکومت نے شروع کیا تھا اور بیچ میں ہی بند کر دیا تھا اس کو دوبارہ شروع کیا اور الگ رقم کی ایلوکیشن کی اور ریکاڈ ٹائم میں پورا کیا، مگر اس کے پورا ہونے کے بعد بسز خریدنے کی زمہ داری سندھ حکومت کی تھی جس پر بھی سندھ حکومت نے کاندھے اچکا دیے، تو یہ کام بھی وفاق کو ہی کرنا پڑا اور ، اس کے بعد آر ٹی ایس سسٹم سمیت تمام کا بیڑہ بھی  وفاقی حکومت نے سر لیا۔ 
اب بات کرتے ہیں  K4 پروجیکٹ کی، K4 پروجیکٹ جو سندھ حکومت نے پورا کرنا تھا وفاق نے اسے بھی  اپنے سر لیا، اور اسے دوبارہ شروع کیا تو پتہ  چلا کے اس کا بیسیک اسٹرکچر ہی غلط ہے، لہٰذا اس کی فیزیبیلیٹی کا کام زیرو سے شروع کیا گیا، اور جب اس کو بنایا جانے لگا تو سندھ حکومت نے روڑے اٹکانے کی کوشش کی، کہا گیا کراچی میں اتنے پانی کی ترسیل کا کوئی سسٹم ہی موجود نہیں لہٰذا اسے فلحال رہنے دیا جائے ، تو وقاق نے انکار کیا اور اسے تین حصوں میں تقسیم کیا تاکہ اس پروجیکٹ کا کام نہ رکے، اسے بنانا شروع کر دیا گیا جسے 2023 میں پورا ہونا تھا ، اس کے علاوہ کراچی میں بےلگام ٹرکوں سے چھٹکارے کے لیے فریٹ کاریڈور کے کام کا آغاز کیا گیا، تاکہ ٹرکوں کو مین سٹی میں داخلے کی ضرورت ہی نہ پڑے، KCR جو کہ پھر سندھ حکومت کا پروجیکٹ ہونا چاہیے تھا مگر افسوس وہ تو ارادہ بھی نہیں کرتے وفاق نے اس پروجیکٹ کو بھی شروع کیا اور اس کی فیزیبیلیٹی بنانی شروع کی تو سندھ حکومت نے انکورچمنٹ ہٹواننے میں کسی قسم کا تعاون نہیں کیا تو وہاں فیصلہ کیا گیا کہ ایسی جگہیں جہاں انکروچمنٹ ہے وہاں پل بنا دیے جائیں تاکہ یہ کام کسی وجہ سے نہ رکے اور  پھر KCT پر بھی کام شروع کر دیا گیا اسے بھی جلد پورا ہونا تھا مگر اب یہ امپورٹڈحکومت کی ول پر ہے, اب بات کرتے ہیں کراچی کے 3 بڑے برساتی نالوں کی، کراچی میں نالے صدیوں سے چوک تھے اور 2020  کی بارش میں کراچی سارا ڈوب گیا تو وفاق نے یہ زمہ داری بھی اپنے سر لی اور ان کی تعمیر کے لئے  35 ارب روپے کے فنڈز جاری کیے، جس سے ان نالوں کی صفائی توسیع اور تعمیر کا کام کیا گیا اور ان کے آس پاس روڈز کی تعمیر کی گئی، انکروچمنٹ ختم کی گئی ، قریباً 15 لاکھ ٹن کچرا نکالا گیا، کیونکہ کے نالوں کی صفائی کا کام صوبائی اداروں کا ہے تو نالوں کی نئی تعمیر کے بعد صوبائی حکومت کے حوالے کیا گیا اس امید کہ ساتھ کہ کم از کم یہ ہر ماہ صفائی تو کر ہی لیں گے مگر افسوس ایسا نہ ہوا اور اس دفع پھر کراچی کو اسی عذاب سے گزرنا پڑا، کراچی اتنا بڑا انڈسٹریل زون ہے، آئے دن آتشزدگی کے واقعات سامنے آتے ہیں، مگر شہر میں فائر ٹینڈرز ہی نہیں تھے، لہذا تحریک انصاف کی حکومت نے 50 فائر ٹینڈرز اس شہر کو فراہم کیے۔ تو یہ ہیں وہ کام جو پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں ہوئے ۔۔
یہاں کراچی والوں کو ایک بات یاد رکھنی ہے جو یہ ہے کہ یہ تمام کام بنا اختیارات و وسائل کے بہت لڑ کر محض اس شہر کی خدمت کی غرض سے کیے گئے ہیں کیونکہ کراچی نے پی ٹی آئی کو مینڈیٹ دیا تھا۔ نا تو تحریک انصاف کی صوبائی حکومت تھی نا ہی بلدیاتی۔ وفاقی حکومت 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ 

اب بات کرتے ہیں ایم کیو ایم کی جس نے ہمیشہ مہاجر ووٹ حاصل کرکے اپنے مفادات کے لیے  بیچ ڈالا، جس پیپلز پارٹی کی عوام دشمن حکومت کی  مخالفت کرنے پر انہیں ووٹ ملا انہوں نے ہر دور میں انہی سے مل کر کراچی والوں کو کاری ضرب لگائی، وسیم اختر بطور مئیر کراچی اختیارات کا رونا روتے رہے مگر آج وہ اور ان کی جماعت اسی پیپلز پارٹی حکومت کی گود میں بیٹھے ہیں جنہوں نے ان کے اختیارات ضبط کیے تھے۔۔ لہذا ایم کیو ایم اب کس منہ سے کراچی والوں سے ووٹ مانگے گی۔ 

پیپلزپارٹی کی تو بات کرنا ہی فضول ہے کیونکہ سبھی کو پتہ ہے یہ عوام دشمن جماعت ہے اور سندھ 15 سالوں سے انکے زیر عتاب ہے۔ 

جماعت اس دفع سوشل میڈیا پر نظر تو آ رہی ہے، کیونکہ کافی پیڈ پروموشنز چل رہی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ جماعت کو کبھی اپنے گھر سے ووٹ نہیں پڑتا۔ وجہ کھلی منافقت ہے۔۔ جو جماعت  وزیراعلی ہاؤس کی جانب " کراچی کو حقوق دو" ریلی نکالے، پھر سراج الحق کی بلاول کے ساتھ ناشتہ کرتے ہوئے تصاویر آئیں اور ریلی کا رخ گورنر ہاؤس ہوجائے۔۔۔ تو ایسی جماعت کیا خاک مسائل حل کرے گی شہر کے؟؟ جن کو اتنا نہیں پتہ کے کیا کام کس کا ہے، کس حکومت کے پاس مسائل کے حل کا اختیار ہے، ذمہ داری کس کی ہے۔۔ ایسی جماعت سے کراچی والے کیا توقع کرینگے۔۔۔؟؟ 
ان کے پاس پیپلز پارٹی سے فائیٹ کرنے کا حوصلہ ہی نہیں ہے، یہ چند روز احتجاج کے بعد فیس سیونگ لے کر اٹھ جاتے ہیں۔ یہ کیا کرینگے شہر کے لیے، ویسے بھی ان کے پاس بیشتر سیٹوں پر کینڈیڈیٹس ہی نہیں ہیں۔۔۔ 

سو میرے شہر کے واسیوں فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ خوددار قیادت یا ضمیر فروش لوٹے یا منافق۔۔۔

Tags:Imran Khan