
نکل کر خانقاہون سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
ترے دین و ادب سے آرہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی قوموں کا عالم پیری
میں کہاں رکتا ہوں عرش و فرش کی آواز سے
مجھکو جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے
اقبال
نظریہ کسی بھی زندہ قوم کی اساس ہوتا ہے۔ اگر کسی قوم کو مٹانا مقصود ہو تو اسکے نظریے پر حملہ کیا جاتا ہے۔ کیونکہ انسان تو فانی ہے ایک گیا دوسرا اسکی جگہ لے لے گا۔ مگر اگر نظریہ ختم ہوجائے،یعنی قوم کی بنیاد ڈھے جائے تو وہ قوم صفہ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔ عمارت تب تک دوبارہ تعمیر ہوسکتی جب تک اسکی بنیاد موجود ہو جب بنیاد اکھاڑ دی جائے گی تو قوم کو فنا ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ نظریہ پاکستان کی اساس ہے۔
لا الہ الا اللہ ہے کیا؟ لا نہین الہ معبود الا اللہ سوائے اللہ کے
یہ وہ بنیادی تصور ہے جو قوم حجاز کو باقی تمام اقوام سے منفرد بناتا ہے۔ یہ ایک قولی اور قلبی معاہدہ ہے۔ جو اللہ اور انسان کے درمیان انجام پاتا ہے۔ مسلمان اپنی زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرتا ہے۔
یہ دکھنے میں فقط سات الفاظ کا مجموعہ ہے، تاثیر اتنی کہ ایک عام انسان کو خاص بنا دیتا ہے کہ
اسکا ایک ہی مالک ہے، اسکے سوا وہ کسی کا محتاج نہیں، زندگی،موت، رزق،عزت اور اچھی بری تقدیر سب اسکے رب کے اختیار مین ہے۔ یہ تصور اسے حقیقی معنوں میں آزاد کردیتا ہے۔
یہی وہ سوچ تھی جس نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو ایک بڑی اور ظالم فوج کے سامنے ثابت قدم رکھا۔ انکے ساتھ بچے اور خواتین بھی تھیں۔ مگر انہوں نے حق کے لیے سب کچھ داو پر لگایا:وجہ تھی انکا ایمان،نانا کا دین، دین اسلام۔۔۔۔۔
کل وہ قربانی دے کر بتا گئے۔ جب دین اسلام پر آنچ آتے دیکھو تو صرف دین کو چننا، حضرت امام حسین نے عملی کردار سے ثابت کر کے دیکھایا سب کچھ لٹایا جا سکتا ہے جہاں سمجھوتہ نہین ہوسکتا وہ دین محمدی ﷺ ہے۔
کیا زینب سلام اللہ علیہا کے بھائی کو انکی فکر نہ تھی؟ کیا بی بی سکینہ سلام اللہ علہیا کے بابا جانی کو انکی فکر نہ تھی؟ کیا بی بی رباب سلام اللہ علیہا کے سر کے تاج کو اپنی چہتی بیوی کی فکر نہ تھی؟ کیا 6 مہینے کے علی اصغر علیہ السلام کے بابا اپنے لخت جگر کی پیاس برداشت کر پا رہے ہونگے؟
بے پناہ محبت تھی ان سب سے،جیسے آج کے کسی بھائی، باپ اور شوہر کو ہوتی ہوگی مگر انہوں نے ان سب محبتوں اور ذمہ داریوں پر پرائمری ذمہ داری کو مقدم رکھا۔۔ کیوں؟؟ کیونکہ انہیں معلوم تھا کل میرے نانا حضرت محمدﷺ کی امت پر بھی کڑا وقت آئے گا کہیں وہ مشکلات سے تائب ہوکر اسلام سے اعراض نہ کر بیٹھیں۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
(اقبال )
نظریہ پاکستان کا تقاضا ہے بحثیت مجموعی ہم ایسی قوم بن کر ابھریں جس کی بنیاد نظریہ پاکستان پر ہو۔ ہماری زندگی میں اسلامی رنگ نمایا ہو جو قطعی طور پر صرف داڑھی اور امامہ پہن کر نہیں آسکتا۔ اسکے لیے ہمارے کردار سے قرآن اور سنت کی خوشبو آنا ضروری ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں ہمارے اخلاق و اقدار حیات نبوی ﷺ سے متاثر ہونے چاہیں۔ مگر اسکے لیے ضروری ہے۔ آپ ﷺ کی حیات طیبہ کو کو پڑھا جائے۔
اس سلسلے میں ایک احسن قدم سابقہ وزیراعظم عمران خان نے اٹھایا تھا۔ جنہوں نے یک قومی نصاب پرائمری تک نافض کردیا اور اسلامیات کی کتابوں مین سیرت النبی ﷺ کو شامل کیا۔
●اسکا مقصد انسانون کی تربیت تھی۔ وہ تربیت جو چودہ سو سال پہلے کی گئی۔ جس کا مقصد کردار کی مضبوطی تھا۔
●دوسرا یکساں قومی نصاب کا مقصد معاشرے میں موجود تمام افراد کو ایک سوچ و فکر پر پروان چڑھانا تھا۔ قوم میں یکسوئی پیدا کرنا۔ جو قومی اتحاد کے لیے بے حد ضروری ہے۔
مگر حالیہ امپورٹڈ حکومت نے دونوں فیصلے واپس لے لیے حتی کہ پرائمری کے بچوں کو سابقہ تمام کتب فراہم کردی گئیں سوائے اسلامیات کی کتاب کے خدشہ ہے اس سے سیرت النبی ﷺ کے اسباق نکالیں جائیں گے۔ بہت جلدی نئی کتابیں آئین گی سب واضح ہوجائے گا۔ اس سال مڈل تک یہی نصاب رائج ہونے کو تھا مگر اس سے پہلے ہی پاکستان اور اسلام کے اندرونی بیرونی دشمنوں نے مل کر عمران خان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اخلاقی گراوٹ کی انتہا یہ ہے کہ لوگوں کو 20 بیس کڑور میں خرید کر نئی حکومت کے لیے راستہ صاف کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں حکومت چاہے ن لیگ کی ہو یا پی پی کی،کوئی گورنمنٹ اسلام اور پاکستان دشمنی نہیں کر سکتی۔ مگر مندرجہ بالا دو جماعتوں کی سربراہی صرف دو خاندانوں کے پاس ہے۔ یہ جماعتیں ملک میں مورثی سیاست کی موجد ہیں۔ ان دونوں خاندانون کی تمام دولت جائز و ناجائز اثاثے بیرون ملک ہیں۔
کوئی بھی کافر انہیں آسانی سے بلیک میل کر کے اسلام اور نظریہ پاکستان پر سمجھوتہ کروا سکتا ہے۔ اگر یہ دولت انہیں پاکستان سے زیادہ عزیز نہ ہوتی تو پاکستان باہر ہوتی ہی کیوں؟
یہ اپنی دولت کو ہر صورت بچائیں گے۔ جو ایک عام پاکستانی کے لیے انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ ریاست پاکستان کا وجود ہی اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا۔ اب اسلام کو سیاست اور ریاست سے علیحدہ کہنا ایسے ہی ہے جیسے مغرب میں مذہب پر کہا جاتا تھا کہ یہ ہر انسان کا پرائیوٹ مسئلہ۔
مگر پاکستان کے بارے میں ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ پاکستان کے بننے کی واحد وجہ لا الہ الا اللہ ہے۔
یہ ممکن ہی نہیں پاکستان کی اساس سے اسلام کو نکالا جاسکے۔ جب جب ایسا کرنے کی کوشش کی گئی یا گھس بیٹھیے اسلام میں impurity لانے کے مذموم عزائم لیے آگے بڑھے پاکستان کی عوام نے انکے آگے بند باندھے۔ 17 ستمبر 1974 اس سلسلہ میں تاریخ ساز دن ہے۔
مگر آجکل ایک بڑا خوفناک جملہ زبان زد عام ہے سابقہ وزیراعظم سے اختلاف کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ"ورلڈ ڈائنامکس بدل چکی ہے اور وزیراعظم عمران خان ابھی تک چودھویں صدی کے لا الہ الا اللہ کے نعرے لگاتا رہتا تھا۔ اس کی وجہ سے ہمارا امیج خراب ہورہا تھا"
کیا یہ الفاظ اور سوچ کسی مسلمان کی ہو سکتی؟
اس سے یہ تاثر مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ عمران خان کو نکالنے والوں میں اسلام کے دشمنوں کا بھی ہاتھ ہے۔
اسوقت عمران خان صدا بلند کر رہا ہے۔ اس میں شامل ہونا ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔ کیونکہ مندرجہ بالا سوچ اگر ہمارے معاشرے میں جیت گئی تو عملا امریکی کالونی بن جائیں گے۔ اور امریکی واضح طور پر ایک نوسرباز اقلیت کو پاکستان میں ایسا اسٹیٹس دلوانا چاہتا ہے جو صریحا پاکستان کے آئین سے متصادم ہے۔
تو پھر علامہ محمد اقبال کا وہ عظیم خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ جو برصغیر کے مسلمانوں کے لیے اسلام کا ایک مضبوط قلعہ چاہتے تھے۔ جس کی بنیادیں اسلامی شعائر پر استوار ہونا تھی۔
ایک طرف حق ہے دوسری طرف باطل سیاسی وابستگی،فرقہ، مختلف شعبہ زندگی اور رنگ و نسل سے بات بہت آگے نکل چکی ہے۔ واضح لکیر کھیچ چکی ہے۔ یا تو آپ حق کی طرف کھڑے ہو جائیں یا خاموش رہ کر باطل کی صفوں میں شامل ہوجائین۔
ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا
غافلون کے لیے پیغام ہے بیداری کا
تو سمجھتا ہے،یہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے ترے ایثار کا، خوداری کا
کیوں ہراساں ہے صہیل فرس(گھوڑوں کی آوازیں )اعدا (دشمن) سے
نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے
(اقبال )
Tags:Imran Khan